سورۃ البلد قرآن کریم کی 90ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔ سورۃ البلد کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو مکہ میں نازل ہوئی تھی، مگر اس کا نزول اس زمانے میں ہوا جب مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت خوب زوروں پر تھی اور آپ کے خلاف ہر ظلم و زیادتی کو کفارِ مکہ نے اپنے لیے حلال کر لیا تھا۔ سورۃ البلد بیس آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، البلد کے معنی لفظی طور پر، “شہر” کے ہیں۔ اور اس سورۃ کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے البلد یعنی شہر کی قسم ارشاد فرمائی اس مناسبت سے سورۃ مبارکہ کا نام سورۃ البلد ہے۔
سورۂ مبارکہ کی ابتدائی آیات میں شہر مکہ کی قسم ارشاد فرمانے کے بعد ﷲ تعالیٰ نے بنی آدم کو اس حقیقت سے روشناس کروایا ہے کہ یہ دنیا آرام و آسائش کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہاں اسے مشقت اور جدوجہد میں پیدا کیا گیا ہے۔
مزید اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی غلط فہمی رد کی ہے جو کہ اپنی طاقت کے زعم میں یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ ﷲ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کی دونوں شاہراہیں دکھائی ہیں۔ جس کے لیے فیصلہ کرنے، دیکھنے اور ان کی پیروی کرنے کے ذرائع بھی ﷲ نے فراہم کیے ہیں۔ اب یہ انسان کی اپنی کوشش اور فیصلے پر منحصر ہے کہ وہ نیکی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور سعادت تک پہنچتا ہے یا برائی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور عذاب سے دوچار ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں لوگوں کو نصیحت کی ہے کہ دکھاوے اور غرور کے لیے خرچ کرنا چھوڑ دیں اور اپنا مال یتیموں اور مسکینوں کی مدد کے لیے ﷲ کی راہ میں خرچ کریں، اللہ پر ایمان رکھیں اور مومنین کی صحبت میں شامل ہوں۔
یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ البلد کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔
قسم کھاتا ہوں میں اس شہر(مکہ) کی۔ اور آپ حلال کرلیے گئے ہیں اس شہر میں۔ اور قسم ہے والد کی اور اولاد کی۔ بیشک ہم نے انسان کو مشقّت میں پیدا کیا ہے۔
سورۃ مبارکہ کی ان ابتدائی آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے شہر کی قسم ارشاد فرمائی ہے۔ اس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے جس میں اس وقت، جب سورۃ کا نزول ہوا، نبی کریم ﷺ کا قیام تھا، آپؐ کا جائے پیدائش بھی یہی شہر تھا۔ یعنی اللہ نے آپؐ کے مولد و مسکن کی قسم کھائی، جس سے اس کی عظمت کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
اور اس میں رسول اللہ ﷺ پر گزرنے والے مصائب کو ﷲ یوں بیان کرتے ہیں کہ مکہ اگرچہ شہر حرام ہے اور ہر ایک کو یہاں امن میسر ہے، لیکن حال یہ ہو گیا کہ نبی کریم ﷺ کوئی امن نصیب نہیں تھا انہیں ستانا اور یہاں تک کہ ان کے قتل کی تدبیریں کرنا حلال کر لیا گیا تھا۔
ان آیات میں تیسری قسم ﷲ تعالیٰ نے باپ اور اولاد کی ارشاد فرمائی ہے۔ باپ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور چونکہ تمام اِنسان انہیں کی اولاد ہیں، اس لئے اس آیت میں تمام نوعِ اِنسانی کی قسم کھائی گئی ہے۔
یہ ہے وہ بات جس پر یہ تمام قسمیں ارشاد فرمائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمام قسموں کا جواب قسم یہ ہے کہ یہ دنیا انسان کے لیے آرام گاہ نہیں ہے جس میں وہ مزے اڑانے کے لیے پیدا کیا گیا ہو، بلکہ یہاں اس کی پیدائش ہی مشقت کی حالت میں ہوئی ہے ۔ اُسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اُٹھانی ہی پڑتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اُسے دُنیا میں کبھی کوئی محنت نہ کرنی پڑے تو یہ اُس کی خام خیالی ہے، ایسا کبھی ممکن ہی نہیں ہے۔
کیا یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اوپر کوئی قابو نہیں پاسکے گا؟ کہتا ہے میں نے تو ڈھیروں مال خرچ کر ڈالا۔ کیا اس کا گمان ہے کہ اسے کسی نے دیکھا نہیں ؟
ان آیات میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مشقت میں پڑے ہوئے انسان کا حال دیکھو۔ اس حالت میں بھی وہ گمان کرتا ہے کوئی اس کی گرفت کرنے پر قادر نہیں۔ انسان جن تکلیفوں میں زندگی گزارتا ہے ان میں بیشتر ایسی ہوتی ہیں جو اس کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی، اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل کی وجہ سے ہوتی ہیں جن میں سے اکثر غلط اور ناجائز قسم کی ہوتی ہیں جنہیں وہ پورا کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ وہ دوسروں پر کئی طرح کی زیادتیاں بھی کرجاتا ہے اور اس بات سے غافل اور بےنیاز ہوتا ہے کہ کوئی ہستی اسے دیکھ بھی رہی ہے اور اس پر گرفت بھی کرسکتی ہے۔ ایسی ہی ناجائز خواہشات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ محض نمود و نمائش کی خاطر اپنا مال خرچ کرتا ہے اور پھر فخر کے طور پر لوگوں کے سامنے جتنا خرچ کرتا ہے اس سے کئی گنا بڑھا چڑھا کر بتاتا ہے- کفار مکہ خاص طور پر اُس دولت پر ناز کرتے تھے جو انہوں نے آنحضرت ﷺ کی مخالفت اور دُشمنی میں خرچ کی ہوتی تھی۔
یعنی جو کچھ خرچ کیا، دِکھاوے کے لئے کیا، پھر اُس پر ناز کرنا کیسا؟ کیا وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہر شخص کے ایک ایک عمل سے واقف ہے کیا ﷲ دیکھ نہیں رہے تھے کہ وہ کس کام میں اور کس مقصد سے خرچ کر رہا ہے۔
کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں نہیں دیں ؟ اور ایک زبان اور دو ہونٹ ؟ اور اس کو (خیر و شر کے) دونوں رستے بھی دکھا دیئے۔
ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے اپنی چند نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں، کیا ہم نے اس کو دیکھنے کے لیے آنکھیں اور بولنے کے لیے زبان نہیں دی اور پھر ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں راستے بتلا دیے۔
ان میں پہلے دو آنکھوں کا ذکر فرمایا کہ انسان جن سے دیکھتا ہے۔ پھر زبان جس سے وہ بولتا ہے اور مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے ہونٹوں سے وہ بولنے اور کھانے کے لیے مدد حاصل کرتا ہے۔
یعنی ہم نے محض عقل و فکر کی طاقتیں عطا کر کے اسے چھوڑ نہیں دیا کہ اپنا راستہ خود تلاش کرے ، بلکہ اس کی رہنمائی بھی کی اور اس کے سامنے بھلائی اور برائی ، نیکی اور بدی کے دونوں راستے نمایاں کر کے رکھ دیے تاکہ وہ خوب سوچ سمجھ کر ان میں سے جس کو چاہے اپنی ذمہ داری پر اختیار کر لے ۔
لیکن وہ گھاٹی کو عبور نہ کرسکا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کون سی ہے؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا۔ یا کھانا کھلا دینا فاقے کے دن میں۔ اس یتیم کو جو قرابت دار بھی ہے۔ یا اس محتاج کو جو مٹی میں رُل رہا ہے۔
ان آیات میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ لیکن وہ گھاٹی کو عبور نہ کرسکا۔ گھاٹی یعنی وہ راستہ جو پہاڑ میں ہو یہ عام طور پر نہایت دشوار گزار ہوتا ہے۔ یہ ایک مثال ہے اس محنت و مشقت کی وضاحت کے لئے جو نیکی کے کاموں کے لئے ایک انسان کو شیطان کے وسوسوں اور تقاضوں کے خلاف کرنی پڑتی ہے، جیسے گھاٹی پر چڑھنے کے لئے سخت جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس نے اس مشکل گھاٹی میں گھسنے کی جرأت ہی نہیں کی۔ مشکل گھاٹی اس لئے فرمایا کہ نفس کو ان کاموں کا سرانجام دینا دشوار ہوتا ہے۔ پھر ﷲ تعالیٰ نے انسان سے سوال کیا ہی کہ اسے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کون سی ہے؟
اس گھاٹی اور دشوار گزار راہ کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کی کہ مال خرچ کر کے کسی غلام کو آزاد کرا دینا ‘ یا کسی مقروض کا قرض ادا کردینا یا کھانا کھلا دینا بھوک کے دن میں یعنی کسی شخص کا قحط سالی کے دوران بھوکوں کو کھانا کھلانا ۔ خصوصی طور پر اس وقت کسی رشتہ دار یتیم کو یا کسی نہایت غریب و نادار کو کھانا کھلانا۔
گویا اس گھاٹی پر چڑھنے کے جو کام یہاں بیان کیے گئے ہیں اور ان سب کا تعلق اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے ہے۔
پھر وہ شامل ہو ان لوگوں میں جو ایمان لائے اور جنہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی نصیحت کی۔ یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے۔
ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ جنت کی بلندیوں پر پہنچنے کے لئے یہی کافی نہیں کہ گردنیں آزاد کرے یا یتیم اور مسکین کو کھانا کھلائے بلکہ اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی مومن ہو، کیونکہ ایمان کے بغیر نہ کوئی عمل صالح ہے اور نہ اللہ کے ہاتھ وہ مقبول ہو سکتا ہے۔ اہل ایمان کی صفت یہ بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اعمال خیر، اسی وقت نافع اور اخروی سعادت کا باعث ہونگے جب ان کا کرنے والا صاحب ایمان ہوگا۔ پھر ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک دوسرے کو صبر اور رحم کرنے کی وصیت اور تاکید بھی ضروری ہے۔
یعنی جن ایمان داروں میں مندرجہ بالا صفات پائی جائیں تو ایسے ہی لوگ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں عرش عظیم کے دائیں طرف جگہ ملے گی۔ اور اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
اور جنہوں نے انکار کیا ہماری آیات کا وہ ہوں گے بائیں بازو والے۔ ان پر آگ بند کردی جائے گی۔
سورۃ کی ان آخری آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کریں گے نہ ایمان لائیں گے، اور نہ عمل صالح کریں گے اور جذبہ رحمت سے محروم ہونے کے باعث نہ اللہ کے بندوں پر رحم کریں گے وہ بدبختوں میں سے ہوں گے۔ یہ لوگ وہ بدنصیب ہیں جنہیں عرش عظیم کے بائیں طرف جگہ ملے گی۔ اور اعمال نامہ ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
اور جو لوگ اللہ کے، آخرت کے اور اللہ کی آیات کے منکر ہیں یہی لوگ اپنی شامت اعمال کے نتیجہ میں ماخوذ ہوں گے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور ان کو آگ میں ڈال کر چاروں طرف بند کردیا جائے گا تاکہ ایک تو آگ کی پوری شدت و حرارت ان کو پہنچے، دوسرے وہ بھاگ کر کہیں نہ جاسکیں گے۔
ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے عطا کیے ہوے مال میں سے اپنی راہ پر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے