اسلام میں کئی بنیادی عقائد ہیں جن پر ایمان لائے بغیر انسان کبھی بھی سچا مسلمان نہیں بن سکتا۔ ان ہی عقائد میں سے ایک عقیدہ، آخرت بھی ہے۔
آخرت پر ایمان: ہر مسلمان کا فرض
آخرت کے معنی، بعد میں ہونے والی چیز کے ہیں۔ اس کا متضاد دنیا ہے جس میں ہم ابھی جی رہے ہیں۔ آخرت خیرات زندگی وہ ہے جو انسان مرنے کے بعد دیکھ پائے گا۔ یہ دنیا فانی ہے، اس نے ایک دن ختم ہو جانا ہے۔ اس میں بسنے والے تمام جاندار اور بےجان ختم ہو جائیں گے۔ لیکن تمام انسانوں کی روح کو نکال کیا جائے گا اور آخرت کے روز تمام تر انسانوں کو پھر سے زندہ کیا جائے گا۔ ان دن لوگوں کے نیک اور برے اعمال کا حساب ہو گا۔ نیک لوگوں کے لئے انعام اور برے لوگوں کے لئے سزا سنائی جائے گی اور پھر وہ لوگ ہمیشہ آخرت کی زندگی میں زندہ رہیں گے۔
قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے۔
بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔ اور بدکردار دوزخ میں۔
سورة الإنفطار آیت 13،14
عقیدہ آخرت، قرآن کی روشنی میں
قرآن انسانوں کو بتاتا ہے کہ اس کی زندگی جو وہ اس دنیا میں بسر کرتا ہے، اس کے مطابق حساب اسے آخرت میں دیا جائے گا۔ اس دنیا کی زندگی محض عارضی ہے اور ہمیشہ رہنے والی زندگی، آخرت کی ہی ہے۔ انسان جو عمال اس دنیا میں کرتا ہے اس ہی کہ مطابق آخرت میں صلہ پاتا ہے۔
قرآن نے بیشتر جگہ یہ بھی بتایا کہ یہ دنیا اور اس میں بسنے والی ہر اک شہ، کسی مخصوص مدت کے لئے زندہ رہ سکتی ہے،ہر چیز خو زوال ہے سوائے اللہ کی ذات کے۔ لہذا دنیا بھی اپنی مخصوص مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہو جائے گی۔ اور اس کی جگہ آخرت کا نظام رائج ہو جائے گا جو ہمیشہ رہنے والا ہے۔
قرآن اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ جب اس دنیا کا نظام ختم ہو کہ آخرت کی زندگی کا آغاز ہو گا تو تمام تر انسان دوبارہ سے زندہ کئے جائیں گے۔ اس روز نیکی اور بدی کا فیصلہ ہو گا۔ نیک لوگوں کے لئے جنت اور سرکش لوگوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہو گا۔
منکرینِ آخرت اور قرآن کا بیان
تمام لوگ آخرت خیرات زندگی خو سچ نہیں مانتے۔ بہت سے لوگ اس کے منکرین بھی ہیں۔ مشرک پوچھتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک بار ہم مر جائیں تو دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔ جس کو قرآن یوں بیان کرتا ہے۔
اور کہنے لگے کہ جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے جانے ہی کے قائل نہیں۔
سورة السجدة آيت 10
ایک اور جگہ ایسے بیان ہے۔
کہنے لگا کہ (جب) ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا؟
سورة يس آیت 78
سرکش لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا ہی ہے اور اس کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔
اور کہتے ہیں کہ ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے اور ہم (مرنے کے بعد) پھر زندہ نہیں کئے جائیں گے۔
سورة الأنعام آیت 29
اللہ تعالی نے ایسے ہے مشرکین کے لیے کچھ آیات نازل فرمائی جن میں بظاہر ان کے شبہات کا جواب موجود ہے۔ جیسا کہ سورہ الروم میں اللہ نے فرمایا
اور وہی تو ہے جو خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے پھر اُسے دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور یہ اس کو بہت آسان ہے۔
سورة الروم آیت 27
اللہ نے ایسے لوگوں کو بتا دیا کہ جب وہ تمام انسانوں کو پہلی بار پیدا کر سکتا ہے تو اس کے لئے دوسری بار پیدا کرنا بھی کوئی مشکل نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ نے فرمایا
کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ اور وہ سب قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے۔
سورة يس آیت 79
قرآن میں ایک اور جگہ اللہ بیان فرماتا ہے۔
(کافرو!) تم خدا سے کیوں کر منکر ہو سکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔
سورة البقرة آیت 28
انسان کی تخلیق کا مقصد
انسان اگر یہ خیال کرتا ہے کہ اس کو بے مقصد بنایا گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ اس کے لیے محض یہی زندگی نہیں جس میں وہ جو چاہے کرے اور اسے اپنے طریقے سے بسر کرے۔
اس بارے میں قرآن مجید میں بھی ذکر ہے
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بےفائدہ پیدا کیا ہے اور یہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟
سورة المؤمنون آیت 115
انسان کو قرآن کے آئینے سے یہ بخوبی معلوم ہے کہ وہ جو کچھ اس زندگی میں بوئے گا، آخرت میں ویسا ہی کاٹے گا۔ کیونکہ اس دنیا میں بیشتر ایسے کام ہم کرتے ہیں جن کا صلہ ہمیں اسی دنیا میں نہیں مل پاتا۔ چاہے پھر وہ نیکی کے کام ہوں یا برائی سے بھرپور، ان کاموں سے ہمیں اذیت ملی ہو یہ کسی اور کو، تو ایسے میں یہ بات کسی اہمیت کی حامل نہیں رہ جاتی کہ جو ہم نے اس دنیا میں دیکھا وہی سب کچھ ہے۔ لازمی طور پر ہمیں اپنے تمام کردہ اعمال کے لئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
اسلام میں عقیدہ آخرت کی اہمیت
قرآن مجید میں آخرت پر ایمان رکھنے والوں کا بجا ذکر آیا ہے اور ان کے لئے اچھے صلے کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک ایسے لوگوں کے لیے فرماتا ہے
اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔
سورة البقرة آیت 4
عقیدہ آخرت پر ایمان انسان کی زندگی کو بہتر بنانے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس پر یقین رکھتے ہوئے انسان زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی جانب راغب ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ برائیوں سے دور رہتا ہے۔
عقیدہ آخرت کے انسانی زندگی پر نتائج
صبر و تحمل
آخرت پر پختہ ایمان انسان کو صبر و تحمل کا پیکر بنا دیتا ہے۔ انسان اس بات پر اکتفا کر لیتا ہے کہ اگر اس زندگی میں اسے نیکیوں کا صلہ نہیں بھی ملا تو آخرت کی زندگی میں اس کے ساتھ انصاف ہوگا۔ اس نے تمام تر اذیتیں جو اس دنیا میں اٹھائی ہیں ان کا بدلہ اسے آخری زندگی میں ضرور ملے گا۔
احساس ذمہ داری
انسان کا جتنا کامل یقین اس بات پر ہوگا کہ اس نے اپنے تمام تر اعمال، اچھے ہوں یا برے، ان کا جواب دینا ہو گا تو اس میں اس بات کی ذمہ داری پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ برائیوں سے دور بھاگے اور جتنے یو سکیں اتنے نیکی کے کام کرے۔
مال خرچ کرنے کا جذبہ
انسان جب یہ جان لیتا ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے جس کو اللہ نے خود بھی فریب ہی کہا ہے، جیسا کہ قرآن میں بیان کردہ ہے
اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔
سورة آل عمران آیت 185
اس بات پر یقین انسان کو بخییل بننے سے روک دیتا یے کیونکہ اسے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ مال جمع کر کر کے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایسے میں انسان سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
نمایاں تصویر: پکسابے