مسلم میمو

لکھنؤ، بھارت: کشمیری قبرستان کو مسمار کرنے کی کوشش

لکھنؤ، بھارت: کشمیری قبرستان کو مسمار کرنے کی کوشش

ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ہندوؤں کو بھارتی مسلمانوں کو تنگ کرنے کا موقع ملا اور اس بار بھی لکھنؤ، بھارت میں، کشمیری قبرستان کو مسمار کرنے کی کوششوں پر مسلمان حیرت زدہ ہیں۔

خبر کا پھیلاؤ

بھارت، اترپردیش کے لکھنؤ میں ایک مقامی بلڈر کے ذریعہ مبینہ طور پر کشمیری قبرستان اور خستہ حال امام بارگاہ کو پہنچنے والے نقصان کی اطلاعات نے مسلم کمیونٹی کو انتشار میں ڈال دیا ہے۔ شیعہ علما اور ایک وکیل نے ڈھانچے کی تعمیر نو کا عزم کیا ہے۔

اتوار کے روز قبرستان کی کھدائی کرنے والے ایک ارتھ موور کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں جس کے بعد شیعہ عالم مولانا قلبِ جواد، کنگ جارج کی میڈیکل یونیورسٹی (کے جی ایم یو) کے قریب پہنچے اور کام بند کروا دیا۔

شیعہ علما کا ردِ عمل

مولانا قلبِ جواد نے بھی احاطے میں ایک مجلس رکھی تھی اور ہجوم فنڈنگ کے ذریعے امام بارگاہ کی تعمیر نو کی یقین دہانی کرائی تھی۔

شیعہ کے ایک اور عالم دین مولانا سیف عباس نے کہا کہ، کام روک دیا گیا ہے لیکن کچھ قبروں کو نقصان پہنچا ہے۔ ہم حد کی دیوار اور مناسب گیٹ کے ساتھ تباہ شدہ قبروں کی تعمیر نو میں مدد کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ زمین ایک وقف جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ ہے اور لکھنؤ میں کشمیریوں کے زیر استعمال ہے۔

مولانا قلبِ جواد نے کہا، زمین کو آزاد کرنے کی تمام کوششیں کی جائیں گی۔ ہم اسے ہجوم فنڈنگ کے ذریعے دوبارہ تعمیر کریں گے۔ میں، ایک اور عالم دین کے ساتھ ، امام بارگاہ کو وقف کرنے کے لئے پچاس ہزار روپے عطیہ کروں گا اور کمیونٹی کے چند ممبروں نے تیس ہزار روپے وقف کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کی جائے۔

لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے ممبئی میں مقیم وکیل محمود عابدی، جو کشمیری نسل سے ہیں اور جن کے آباؤ اجداد قبرستان میں دفن ہیں، نے بھی وزیر اعلی یوگی آدتی ناتھ کو اس معاملے پر مداخلت کے لئے خط لکھا ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ان کے بڑے دادا کو قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔ ہماری برادری کے بزرگوں کی قبریں وہاں برقرار ہیں۔ ہم اپنے آباؤ اجداد کا احترام کرنے کے لئے رمضان اور محرم کے دوران شبِ برات اور دیگر خاص مواقع پر اس قبرستان کا دورہ کرتے ہیں۔

یہ بات ظاہر رہے کہ پہلے جب بھی لکھنؤ یا اتر پردیش میں سنی مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوا تو شیعہ مسلمانوں نے کسی قسم کی بھی مداخلت کرنے میں پیشگی ظاہر نہیں کی لیکن اب جب مشکل ان کے اپنے سر آن پڑی ہے تو اس سب معاملے سے کافی خفیف دکھائی دیتے ہیں۔

حوالہ جات

دی کشمیریت

نمایاں تصویر: دی کشمیریت

Exit mobile version