سورة العادیات:ناشکری کی مذمت
اسلام

سورة العادیات:ناشکری کی مذمت

سورة العادیات قرآن کریم کی 100ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ العادیات کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو کہ گیارہ آیات پر مشتمل ہے، العٰدیٰت کے معنی تیز دوڑنے والے(گھوڑوں) کے ہیں اس سورۂ مبارکہ کو ’العٰدیٰت‘ (تیزرفتار گھوڑے) کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس کی پہلی آیت میں ﷲ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی ہے اور ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔

سورة العادیات ان سورتوں میں سے ہے جن کا آغاز قسم کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سورۃ میں میدان جنگ میں لڑنے والے مجاہدین اور سپاہیوں کی توصیف، اللہ کی نسبت انسان کی ناشکری، زرپرستی کی بنا پر انسان کی کنجوسی اور بخل نیز قیامت کی صورت حال اور روز جزا کی کیفیت سے متعلق بحث کی گئی ہے

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ العادیات کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

قسم ہے ان گھوڑوں کی جو دوڑتے ہیں ہانپتے ہوئے۔

العٰدیٰت لفظ “عادیۃ” کا جمع ہے جس کے معنی گذرنے اور جدا ہونے کے ہیں اور اس آیت میں اس لفظ کا معنی تیز دوڑنے کے ہیں ضَبْح: لغت میں گھوڑے کے ہانپنے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ اس وقت بولا جاتاہے جب تیز رفتاری اور دوڑ کی وجہ سے گھوڑے کا سانس پھول جاتا ہے اور ایک قسم کی آواز اس کے سینے سے نکلتی ہوئی سنی جاتی ہے۔ یہ آواز ہنہنانے کے علاوہ ہے۔ یہاں تیز دوڑنے والے گھوڑوں کو بطور شاہد پیش کیا گیا ہے، اور اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ان دوڑنے والوں کی قسم جو دوڑتے ہیں ہانپتے ہوئے۔ 

پھر وہ سُم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔

اس آیت میں مزید ﷲ تعالیٰ گھوڑوں کی صفت بیان فرماتے ہیں کہ سُم مار کر ٹاپو سے آگ نکالنا بھی گھوڑے کے ساتھ مخصوص ہے۔ جب سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑوں کے سُم کسی پتھر وغیرہ سے ٹکراتے ہیں تو ان سے چنگاریاں نکلتی دکھائی دیتی ہیں۔ چنگاریاں جھاڑنے کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ گھوڑے رات کے وقت دوڑتے ہیں ، کیونکہ رات ہی کو ان سُموں کی پتھروں پر ضرب سے جھڑنے والے شرارے نظر آتے ہیں۔

پھر وہ علی الصبح غارت گری کرتے ہیں۔

اس آیت میں گھوڑوں کی خصوصی صفات کے ساتھ ساتھ زمانہ جاہلیت کے عرب تمدن کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ جب کسی بستی پر انہیں چھاپہ مارنا ہوتا توعلی الصبح منہ اندھیرے کے اوقات کا انتخاب کرتے تھے۔ اس قسم کی غارت گری کے لیے رات کا پچھلا پہر اس لیے موزوں سمجھا جاتا تھا تاکہ دشمن خبردار نہ ہوسکے، کیونکہ دشمن پر ایسے وقت میں غفلت و سستی چھائی ہوتی ہے جبکہ حملہ آور آرام و راحت کے بعد حملہ کے لئے پوری طرح چاق و چوبند ہوجاتا ہے ۔

پھر وہ اس سے گرد اڑاتے ہوئے جاتے ہیں۔

اس آیت میں دراصل گھوڑوں کی تیز رفتاری کی تعریف ہے جو رات کو زمین ٹھنڈی اور شبنم آلود ہونے کے باوجود اس سے گرد و غبار اٹھاتے ہیں۔ یعنی یہ گھوڑے جس وقت تیزی سے دوڑتے یا دھاوا بولتے ہیں تو اس جگہ پر گرد و غبار چھا جاتا ہے۔

پھر اس کے ساتھ وہ (دشمن کی) جمعیت کے اندر گھس جاتے ہیں۔

 اس آیت کا مطلب ہے کہ اس وقت، یا جبکہ فضا گردوغبار سے اٹی ہوئی ہے یہ گھوڑے دشمن کے لشکروں میں گھس جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ کرتے ہیں۔ پرانے زمانے کی جنگوں میں گھوڑے بہت موثر اور کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ حملے کے وقت گھوڑے اپنے سواروں کے حکم پر مخالف فوج کی طرف سے تیروں کی بوچھاڑ اور نیزوں کی یلغار کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی صفوں میں گھس جاتے تھے ۔ گھوڑے کا اپنے مالک کی فرمانبرداری کا جذبہ اور اس کی وفاداری کا وصف ہی دراصل ان قسموں کے مضمون کا مرکزی نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ دلانا مقصود ہے۔

یقیناانسان اپنے رب کا بہت ہی ناشکرا ہے۔

اس آیتِ کریمہ سے قبل پانچ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی بہادری، جفاکشی اور اطاعت وفرماں برداری کو بیان کیا ہے، اس کی قسمیں کھائی ہیں۔ چناچہ گھوڑوں کے ان اوصاف کے ذکر کے بعد تقابل کے طور پر انسان کے کردار کا ذکر یوں کیا گیا ہے کہ ایک طرف وہ جانور ہے جو اپنے مالک کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کردیتا ہے جو اس کا خالق نہیں ہے بلکہ صرف اس کے دانے پانی کا انتظام کرتا ہے۔ اور دوسری طرف یہ باشعور انسان جسے اللہ تعالیٰ نے عقل و خرد، علم فہم  اور دیگر نعمتوں سے بھی نوازا ہے، جو اشرف المخلوقات ہے لیکن ہمیشہ اپنے رب کی ناشکری کرتا ہے۔ یہاں اس آیت میں جس چیز پر قسم اٹھائی گئی ہے وہ انسان کا ناشکرا ہونا ہے۔

اور وہ خود اس پر گواہ ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں کہ انسان خود بھی اپنی ناشکری کی گواہی دیتا ہے۔ وہ اپنے اس طرزعمل سے خوب واقف ہے اس سے پہلے والی آیت میں  اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ انسان ناشکرا ہے پھر اب بتلایا کہ وہ خود اس پر گواہ ہے۔ انسان اپنے خیالات، جذبات اور کردار کے بارے میں خود سب کچھ جانتا ہے۔ چناچہ انسان خوب جانتا ہے کہ وہ قدم قدم پر اپنے رب کی ناشکری کا مرتکب ہو رہا ہے۔

اور وہ مال و دولت کی محبت میں بہت شدید ہے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مال کی بے پناہ محبّت کی مذمت کی ہے۔ اس آیت میں جس بات پر قسم کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان مال کی محبت میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ مال کی محبّت حرام نہیں ہے؛ لیکن مال کی بہت زیادہ محبّت ناجائز ہے کیونکہ اس مال کی محبت میں انسان اللہ اور بندوں کے حقوق سے غافل ہو جاتا ہے مال و دولت کی محبت میں انسان اکثر اوقات حلال و حرام کی تمیز تک بھلا دیتا ہے۔ حتیٰ کہ حرام کھاتے ہوئے وہ اپنے ضمیر کی ملامت کی بھی پروا نہیں کرتا۔ اور ان اعمال سے بچنے کی فکر نہیں کرتا ہے، جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔

تو کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا جب نکال لیا جائے گا وہ سب کچھ جو قبروں میں ہے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہماری توجّہ قیامت کے دن کی طرف مبذول کرائی ہے۔ جس دن قبروں کے مردوں کو زندہ کر کے اٹھا کھڑا کردیا جائے گا۔ یعنی مرے ہوئے انسان جہاں جس حالت میں بھی پڑے ہوں گے وہاں سے ان کو نکال کر زندہ انسانوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا ۔ تو کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا معنی کیا وہ اس وقت سے نہیں ڈرتا کہ اپنے مالک کو کیا جواب دے گا ؟

اور ظاہر کردیا جائے گا جو کچھ سینوں میں ہے۔

اس آیت میں ﷲ تعالیٰ قیامت کے دن کے بارے میں مزید بیان کرتے اس دن انسان کے دل کے ارادے اور نیتیں تمام لوگوں کے سامنے بے نقاب کر دیئے جائیں گے، اس دن تمام پوشیدہ راز ظاہر کئے جائیں گے۔ دوسرے اعمال تو پہلے ہی ظاہر ہوچکے تھے، مگر دل کی نیت اور ارادے کے متعلق خیال ہوسکتا تھا کہ اسے کون جانتا ہے، تو اس وقت وہ بھی ظاہر کردیئے جائیں گے۔ چنانچہ اگر کسی نے کوئی عمل دنیا کے اندر ریاکاری کے لیے کیا ہوگا، وہ قیامت کےدن ہر ایک کے سامنے آشکارا ہو جائےگا۔

بیشک اُنکے رب کو اُنکی اُس دن سب خبر ہے

اس آیت پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ رب تعالیٰ تو ہمیشہ ہی بندوں کے حالات سے باخبر ہے، پھر اس دن کو خاص کیوں فرمایا ؟ اللہ تو آج بھی، پہلے بھی اور اس وقت بھی یعنی ہر وقت بندوں کے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دن تمام لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ اللہ دنیا کی زندگی میں بھی ان کے احوال سے پوری طرح باخبر تھا اور آج بھی پوری طرح باخبر ہے۔ لہذا کسی شخص کو انکار کی گنجائش نہ رہے گی۔ یعنی جو رب ان کو قبروں سے نکال لے گا ان کے سینوں کے رازوں کو ظاہر کر دے گا اس کے متعلق ہر شخص جان سکتا ہے کہ وہ کتنا باخبر ہے؟ اور اس سے کوئی چیز مخفی نہیں پھر وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ 

سورة العادیات میں گھوڑے کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ اس جانور کی پیدائش بھی اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں میں سے ہے۔ متعدد قسمیں کھا کر چند حقائق کی نقاب کشائی کی جارہی ہے۔ اس سورۃ میں انسان کو اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ گھوڑے کی طبیعت، فرماں برداری اور وفاداری سے سبق لے۔ گھوڑا ایک ایسا جانور ہے جو اپنے مالک کی اطاعت وفرماں برداری کرتا ہے۔ جبکہ انسان اپنے خالق و  مالک کی ناشکری کرتا ہے۔ 

سورة العادیات گویا ان اشخاص کو تنبیہ ہے جو رب کی نعمتیں تو استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے، اسکی ناشکری کرتے ہیں۔ اسی طرح مال کی محبت میں گرفتار ہو کر مال کے وہ حقوق ادا نہیں کرتے جو اللہ نے اس میں دوسرے لوگوں کے رکھے ہیں۔ سورۃ کی اخروی آیات کا مقصود لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ انسان آخرت کا منکر یا اس سے غافل ہو کر کیسی اخلاقی پستی میں گر جاتا ہے اور ساتھ ساتھ لوگوں کو اس بات سے خبردار بھی کرنا ہے کہ آخرت میں صرف ان کے ظاہری افعال ہی کی نہیں بلکہ ان کے دلوں میں چھپے ہوئے اسرار تک کی جانچ پڑتال ہوگی۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اے اللہ ہم سے آسان حساب لینا اور اپنی خصوصی رحمت سے ہمارے گناہوں کو معاف کردینا، آمین

:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

مزید دلچسپ مضامین