سورۃ الاعلی:تزکیہ نفس حقیقی کامیابی کا ذریعہ
اسلام

سورۃ الاعلی: تزکیہ نفس حقیقی کامیابی کا ذریعہ

سورۃ الاعلی قرآن کریم کی 87ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ الاعلی کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو مکہ میں نازل ہوئی تھی، اس سورۃ کا نزول اسلام کے ابتدائی دور میں ہوا۔ سورۃ الاعلی انیس آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، الاعلی کے معنی لفظی طور پر، “سب سے اعلیٰ” کے ہیں۔ پہلی ہی آیت کے لفظ الاعلی کو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔

سورۃ مبارکہ کا آغاز اس حکم سے ہو رہا ہے کہ اپنے رب اعلی کی تسبیح بیان کرو۔ یعنی ﷲ کی ذات ہر نقص ضعف اور ناتوانی سے پاک ہے۔ اس کی ذات قدرت وحکمت کا سرچشمہ ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو ایک اندازے اور سلیقہ کے مطابق پیدا فرمایا ہے، اس کا تناسب قائم کیا، اس کی تقدیر بنائی، اسے وہ کام انجام دینے کی راہ بتائی جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے،

اس کے بعد براہ راست رسول ﷲ ﷺ سے خطاب فرمایا ہے اور آپ کو ہدایت فرمائی ہے کہ آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ قرآن جو آپ پر نازل کیا جا رہا ہے، یہ لفظ بلفظ آپ کو یاد کیسے رہے گا۔ اس کو آپ کے حافظے میں محفوظ کر دینا ہمارا کام ہے، اور یہ کہ آپ کو ہر ایک کو راہ راست پر لے آنے کا ذمہ نہیں دیا گیا ہے بلکہ آپ کا کام بس حق کی تبلیغ کر دینا ہے۔

سورۃ مبارکہ کے آخر میں ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ فلاح صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو عقائد ، اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کریں، اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھیں۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ انہیں ساری فکر بس اسی دنیا کے آرام و آسائش اور فائدوں اور لذتوں کی ہے حالانکہ اصل فکر آخرت کی ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی۔ صرف قرآن میں ہی نہیں، بلکہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسٰیؑ کے صحیفوں میں بھی انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا تھا ۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الاعلی کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

پاکی بیان کرو اپنے رب کے نام کی جو بہت بلند وبالا ہے۔ جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا پھر تناسب قائم کیا۔ جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی، اور جس نے (زمین سے) چارہ نکالا۔ پھر اس کو کردیا سیاہ کُوڑا ۔ 

سورۃ مبارکہ کے آغاز میں ﷲ تعالیٰ رسول ﷲ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے حکم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کو ان ناموں سے یاد کیا جائے جو اس کے لائق ہیں اور ایسے نام اس کی ذات برتر کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے موزوں نہیں ہیں ، یا جن میں اس کے لیے نقص یا گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہیں، یا جن میں اس کی ذات یا صفات یا افعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہے۔ اس غرض کے لیے محفوظ ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ اپنی ذات میں، صفات میں، اَسماء میں، اَفعال میں اور اَحکام میں  ہر اس چیز سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے اور پاک جگہوں میں عزت و احترام کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کا نام لیا جائے۔ 

ان آیات میں ﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت و حکمت کے چند مظاہر بیان فرمائے ہیں۔ اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کرو جس نے ہر چیز کی پیدائش ایسی مناسب فرمائی جو پیدا کرنے والے کے علم و حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کی سب اشیاء کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اس چیز سے جو کام لینا مقصود تھا اس کے مطابق اس کی شکل و صورت بنائی اور شکل وصورت کو اس طرح ٹھیک ٹھاک اور درست کیا کہ اس کے لیے اس سے بہتر شکل و صورت ممکن ہی نہ تھی۔

اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پیشتر اس کی تقدیر بنائی ہے۔ کائنات میں آج تک جو اشیا وجود میں آچکی ہیں اور جو کچھ بعد میں پیدا ہوں گی سب کچھ اللہ کی اس تقدیر یا اندازے کے مطابق ہو رہا ہے جو اس نے پہلے سے طے کر رکھا ہے۔ یعنی جس چیز کو جس مقصد کے لیے بنایا، اس چیز کی فطرت میں وہ کام کرنے کا طریقہ بھی ودیعت کردیا۔

اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کامل قدرت کے ساتھ زمین سے مختلف اَقسام کی نباتات اور طرح طرح کی گھاس پیدا کی جسے جانور چرتے ہیں، پھر اس کا سرسبز ہونا ختم کر کے اسے خشک سیاہ کردیا۔ یعنی اسی کے طے کردہ نظام کے تحت گھاس اور نباتات وغیرہ زمین سے اگتے ہیں اور پھر گل سڑ کر ختم ہوجاتے ہیں۔ اشارہ اس طرف ہے کہ اس دُنیا میں ہر چیز اﷲ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ کچھ عرصے اپنی بہار دِکھانے کے بعد وہ بد شکل اور پھر فنا ہوجاتی ہے۔

ہم آپ کو پڑھا دیں گے پھر آپ بھولیں گے نہیں۔ سوائے اس کے کہ جو اللہ چاہے۔ یقینا وہ جانتا ہے ظاہر اور پوشیده کو۔ ہم آپ کے لئے آسانی پیدا کر دیں گے۔ تو آپ نصیحت کرتے رہیں اگر نصیحت کچھ فائده دے۔ 

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو انکے فریضہ پیغمبری کی طرف چند ہدایات دی ہیں اور ہدایات سے پہلے آپ کے کام کو آسان کردینے کی خوشخبری سنائی ہے کہ قرآن کو یاد میں محفوظ کرا دینا ہماری ذمہ داری ہے آپ فکر نہ کریں یعنی آپ قرآن کی کوئی چیز بھولینگے نہیں بجز اسکے کہ کسی چیز کو اللہ تعالیٰ ہی اپنی حکمت و مصلحت کی بنا پر آپ کے ذہن سے بھلا دینا اور محو کردینا چاہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے، یقینا وہ جانتا ہے اونچی آواز میں کہی گئی بات کو بھی اور جو مخفی رکھی جائے اسے بھی۔ “

ﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو شریعت عطا فرمائی ہے، وہ بذات خود آسان ہے، ان آیاتِ کریمہ میں پھر مزید تسلی دی گئی ہے کہ ہم اس پر چلنے کو بھی آپ کے لئے آسان کردیں گے۔

نبی کی ذمہ داری ہے دعوت و تبلیغ یعنی کہ اللہ کا پیغام سب لوگوں تک پہنچا دے خواہ وہ اسے قبول کریں یا برا مانیں۔ لیکن وعظ و نصیحت صرف ان کے لیے ہے جو وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہوں، سب کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس کے لیے جس کے دل میں کچھ اللہ کا ڈر ہو۔ اس آیت میں رسول ﷲ ﷺ کو فریضہ پیغمبری کی ادائیگی کا حکم ہے یعنی کہ آپ لوگوں کو تبلیغ و نصیحت کیجئے اگر نصیحت نفع دیتی ہو، یعنی جب آپ دیکھیں کہ آپ کی نصیحت سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو ایسے لوگوں کو بار بار وغط و نصیحت کرتے رہیے۔ اور جو لوگ وعظ و نصیحت سے الٹا اثر لیں، مذاق اڑانے لگیں، یا مخالفت پر اتر آئیں تو ایسے لوگوں کو وعظ و نصیحت سے اجتناب کیجیے۔ 

وہ نصیحت حاصل کرلے گا جو ڈرتا ہے۔ البتہ جو بدبخت ہے وہ اس سے پہلوتہی کرے گا۔ جو (آخر کار) داخل ہوگا بڑی آگ میں۔ پھر نہ اس میں وہ مرے گا نہ زندہ رہے گا۔

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ سے فرماتے ہیں کہ آپؐ لوگوں کو تذکیر و نصیحت کرتے جایئے، جس کے دل میں اللہ کا خوف اور انجام بد کا اندیشہ ہوگا وہ اس کا اثر ضرور قبول کرے گا اور اسے فائدہ بھی ہوگا۔ یعنی آپ کی نصیحت سے وہ یقینا عبرت حاصل کریں گے، ان میں خشیت الہی اور اپنی اصلاح کا جذبہ مزید قوی ہوگا۔

لیکن وہ بدبخت جو سرے سے اللہ اور اس کے رسول کی نصیحت کو قبول ہی نہ کریں اور مرتے دم تک کفر و شرک یا دہریت پر قائم رہیں ان لوگوں کے لیے سزا ہے کہ  نہ اسے موت ہی آئے گی کہ عذاب سے چھوٹ جائے ، اور نہ جینے کی طرح جیے گا کہ زندگی کا کوئی لطف اسے حاصل ہو ۔ 

 یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے خود کو پاک کرلیا۔ اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا۔

ان آیات میں لفظ ’’تَزَكّٰى‘ یعنی پاکیزگی سے مراد ہے کفر و شرک چھوڑ کر ایمان لانا، برے اخلاق چھوڑ کر اچھے اخلاق اختیار کرنا، اور برے اعمال چھوڑ کر نیک اعمال کرنا ہے یعنی جس نے اپنے آپ کو کفر و شرک عقائد فاسدہ سے اور اخلاقی رذیلہ سے پاک کرلیا، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے احکام اسلام کی تابعداری کی نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا، اس نے نجات اور فلاح پالی۔ جبکہ فلاح سے مراد دنیوی خوشخالی نہیں ہے بلکہ حقیقی اخروی کامیابی ہے، خواہ دنیا کی خوشحالی اس کے ساتھ میسر ہو یا نہ ہو کیونکہ  اس دنیا میں اس کی کامیاب زندگی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے کیونکہ دارالجزا آخرت ہے یہ دنیا نہیں۔

دو چیزیں ذکر الہی کی تعریف میں آتی ہیں؛ دل میں بھی اللہ کو یاد کرنا ہے اور زبان سے بھی اس کا ذکر کرنا ہے۔  پہلے اللہ کو یاد کرنا، پھر نماز پڑھنا، اسی کے مطابق یہ طریقہ مقرر کیا گیا ہے کہ اللہ اکبر کہہ کر نماز کی ابتدا کی جائے۔ یعنی صرف یاد کر کے رہ نہیں گیا بلکہ نماز کی پابندی اختیار کر کے اس نے ثابت کر دیا کہ جس کو وہ اپنا ﷲ مان رہا ہے اس کی اطاعت کے لیے وہ عملاً تیار ہے اور اس کو ہمیشہ یاد کرتے رہنے کا اہتمام کر رہا ہے۔

بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ جبکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی۔ یقینا یہی بات اگلے صحیفوں میں بھی ہے۔ ابراہیمؑ اور موسیٰؑ کے صحیفوں میں۔

ان آخری آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ انسان کی اخروی کامیابی یا ناکامی کی وجوہات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ انسان دنیوی زندگی کے مفادات کو آخرت کے معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا نفع اور نقصان نقد نظر آتا ہے جبکہ آخرت کی راحت اور تکلیف سامنے نظر نہیں آتی۔ اس لیے دنیا کے معمولی سے مفاد انسان آخرت کے بہت بڑے عذاب کے بدلے میں بھی حاصل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔  یعنی انسان کی ساری فکر بس دنیا اور اس کی راحت و آسائش اور اس کے فائدوں اور لذتوں کے لیے ہے یہاں جو کچھ حاصل ہو جائے، سمجھتا ہے کہ بس وہی اصل فائدہ ہے جو حاصل ہو گیا، اور یہاں جس چیز سے محروم رہے خیال کرتا ہے کہ بس وہی اصل نقصان ہے جو پہنچ گیا۔

حالانکہ آخرت دو وجہ سے دنیا سے بہتر ہے۔ ایک تو وہاں کی نعمتیں اس دنیا کی نعمتوں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ اور دوسرے وہاں کی نعمتیں نہ ختم ہونے والی اور لازوال ہیں جبکہ دنیا کی نعمتیں فانی ہیں۔

تذکیر اور ہدایت کا اصل جوہر اور خلاصہ یہی ہے کہ انسان آخرت کو دنیا پر ترجیح دے، کیونکہ دنیا فانی اور وقتی ہے جبکہ آخرت اس سے کہیں بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ہدایت کے حوالے سے یہ بنیادی نکتہ قرآن سے پہلے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسٰیؑ کے آسمانی صحیفوں میں بھی مذکور تھا۔

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ ہمیں حقیقی اخروی کامیابی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ 

یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین