سورۃ العلق قرآن کریم کی 96ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔ سورۃ العلق کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو کہ انیس آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، العلق کے معنی خون کے ایک لوتھڑے کے ہیں۔ سورۃ کی دوسری آیت میں لفظ ”علق“ آیا ہے، سورۃ العلق کا نام اسی آیت سے لیا گیا ہے کہ جس میں خون کے جمے ہوئے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
سورۃ العلق، قرآن کریم کی پہلی سورۃ ہے جو رسول اللہﷺ پر نازل ہوئی تھی یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی ﷺ پر اس وقت آئی جب آپ غار حرا میں مصروف عبادت تھے، فرشتے نے آ کر کہا، پڑھ آپ ؐ نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے آپ ؐ کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا پڑھ، آپ ؐ نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ ؐ کو بھینچا پھر چھوڑ دیا اور کہا:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
اس کے بعد آپؐ وہاں سے کانپتے لرزتے ہوئے اس حال میں واپس آئے کہ آپ کے دل پر کپکپی طاری تھی۔
مفسرین کرام نے اس سورۃ کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ اس سورۃ کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ابتدائی پانچ آیات پر مشتمل ہے، قرآن کی سب سے پہلی آیات جو حضور ﷺ پر نازل ہوئیں وہ یہی تھیں اور دوسرا حصہ سورۃ کے آخر تک چلتا ہے۔ دوسرا حصہ بعد میں اُس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ ﷺ نے حرم میں نماز پڑھنی شروع کی اور کفار بالخصوص ابو جہل نے آپ کو دھمکا کر اس سے روکنے کی کوشش کی۔
یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ العلق کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔
پڑھیے اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔
قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ سب سے پہلی وحی ہے جس کے نزول سے نبوت کی ابتدا ہوئی۔ عام طور پر اس آیت کے پہلے لفظ پر بہت زیادہ فوکس کیا جاتا ہے جس کی بنا پر اس آیت کا پورا مفہو م ہی بدل جاتا ہے۔ یہاں اقرا کا لفظ ایک حکم اور ہدایت ہے۔ جیسے قرآن میں کئی مقامات پر نبی کریمﷺ کو کہا گیا کہ ” قل” یعنی کہہ دو۔ تو اسی طرح یہاں اللہ تعالی فرشتے کے ذریعے نبی کریمﷺ کو حکم دے رہے ہیں کہ ” پڑھو” یعنی جو کچھ وحی تمہیں دی جارہی ہے اسے پڑھو۔ اسی لیے جب جبریل علیہ السلام نبی کریم ﷺ سے غار حرا میں ملے اور وحی کا یہ ابتدائی حکم دیا کہ ” اقرا” تو نبی کریم ﷺ نے یہی فرمایا کہ ” ماانا بقاری ” یعنی میں تو پڑھا ہوا نہیں۔
تو اگر ہم اقرا کے لفظ کو نبی کریم ﷺ کو دی جانے والی ہدایت مانیں تو باقی آیت کا مفہوم کم و بیش وہی ہے جو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ہے۔ یعنی ” باسم ربک الذی خلق”۔ یعنی ابتدا ہے تمہارے رب کے نام سے جس نے تخلیق کیا۔ یہ ابتدا ہے قرآن کی اور آخری نبوت کی۔ یعنی یہ آیت دراصل وحی کی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ابتدا ہے البتہ یہاں الفاظ مختلف ہیں۔
جس نے انسان کو جمے ہوئے لہو سے پیدا کیا.
پہلی آیت میں کائنات کی عام تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد اس آیتِ کریمہ میں خاص طور پر انسان کا ذکر کیا کہ اللہ تعالی نے کس حقیر حالت سے اس کی تخلیق کی ابتدا کر کے اسے پورا انسان بنایا ۔ علق جمع ہے علقہ کی جس کے معنی جمے ہوئے خون کے ہیں ۔ یہ وہ ابتدائی حالت ہے جو استقرار حمل کے بعد پہلے چند دنوں میں رونما ہوتی ہے ، پھر وہ گوشت کی شکل اختیار کرتی ہے اور اس کے بعد بتدریج امر الٰہی کے مطابق اس کی تخلیق مکمل ہوجاتی ہے
پڑھیے اور آپ کا ربّ بہت کریم ہے۔
اس آیتِ کریمہ میں دوبارہ وہی لفظ ” اقرا” یعنی پڑھو استعمال ہوا ہے چونکہ نبی کریم ﷺ جبریل علیہ السلام کو اچانک اپنے سامنے پا کر گھبرا گئے تھے، اسی لیے بطور تاکید آپ سے کہا گیا کہ آپ پڑھئے اور چونکہ نبی کریم ﷺ نے پڑھنے سے معذرت کی تھی اور کہا تھا کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا، اس لئے آپ سے کہا گیا کہ آپ کا وہ رب آپ کو پڑھنے کا حکم دے رہا ہے جو بے پایاں کرم و احسان والا ہے، جس کے کرم کی کوئی انتہا نہیں۔
سورۃ کی پہلی آیت میں بتایا گیا کہ اس کلام کا بھیجنے والا رب بھی ہے ، خالق بھی ہے اور قادر مطلق بھی ہے۔ اب یہاں بتایا جارہا ہے کہ وہ بہت ہی کرم ، لطف، مہربانی والا خدا ہے۔
جس نے علم سکھایا قلم سے
انسان کی بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ صاحب علم ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا کریم ہے جس نے اس پر یہ مہربانی فرمائی کہ قلم سے لکھنا سکھایا جس کے ذریعے غائب اُمور کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ جس سے علم کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہوسکتی ہے اور لکھی ہوئی چیز کسی عالم کی موت کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔ اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو علم اور کتابت کے فن کا طریقہ الہام نہ کرتا تو انسان کی علمی قابلیتیں سمٹ کر انتہائی محدود رہ جاتیں۔
سورۃ کی ابتدائی آیات میں تخلیق انسانی کے بعد اس آیت میں اس کی تعلیم کا بیان ہے کیونکہ تعلیم ہی وہ چیز ہے جو انسان کو دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز اور تمام مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ بناتی ہے پھر تعلیم کی عام صورتیں دو ہیں ایک زبانی تعلیم دوسرے بذریعہ قلم تحریر و خط سے۔ سورۃ کی ابتدا میں لفظ اقرا میں اگرچہ زبانی تعلیم ہی کی ابتدا ہے مگر اس آیت میں جہاں تعلیم دینے کا بیان آیا ہے اس میں قلمی تعلیم کو مقدم کر کے بیان فرمایا ہے۔ تعلیم کا سب سے پہلا اور اہم ذریعہ قلم اور کتابت ہے۔
انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ بتا دیا کہ انسان کو جو بھی علم ملا ہے وہ اللہ ہی کی جانب سے ملا ہے۔ انسان کو اللہ تعالی نے جو علم دیا ہے وہ اس کی فطرت اور وجدان کے ساتھ ساتھ وحی کے ذریعے بھی دیا ہے۔ اسی طرح انسان اپنے تجربات سے بھی بہت کچھ سیکھتا اور اپنا علم اگلی نسل کو منتقل کرتا ہے۔ اگر ہم دنیا کے علم کو دیکھیں تو کھیتی باڑی کرنا، کھانا پکانا، شکار کرنا، جنسی تعلق قائم کرنا، رہائش تعمیر کرنا ، لباس پہننا ، اسلحہ بنانا وغیرہ وہ علوم ہیں جو انسان کو جبلت ، فطرت ، وجدان اور وحی کے ذریعے ملے ہیں۔ اگر انسان ان سب علوم کو مائنس کردے تو اس کی زندگی غاروں کے دور میں چلی جائے گی۔ یہی حال تمام سائنسی ایجادات کا ہے۔ ان کو بنانے میں خدا کی جانب سے راہنمائی ہر لمحہ پیش پیش رہی ہے۔ علم عطا کرنا خدا کی دین ہے اور یہ وہ سار ا کا سارا علم ہے جو انسان نہیں جانتا تھا بلکہ اسے مختلف طریقوں سے سکھایا گیا۔
یہ آیت خدا کے رحمان و رحیم ہونے کی جانب اشارہ کررہی ہے کہ اس کی کرم نوازی کہ اس نے انسان کو و ہ سب سکھادیا جس کی اسے ضرورت تھی۔
کوئی نہیں ! انسان سرکشی پر آمادہ ہو ہی جاتا ہے۔
اِس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے
اس پہلی آیت میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ انسان سرکشی اور ظلم و زیادتی پر کیوں اتر آتا ہے ؟ جس کی وجہ اگلی آیت میں بتائی گئی : یعنی اپنے مال و دولت اور سرداری کی وجہ سے اپنے آپ کو بے نیاز اور بے پروا سمجھتا ہے کہ کوئی مجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ دیکھتا ہے کہ اس پر کوئی پکڑ نہیں۔ دنیا میں نہ تو ظالم کو اس کے ظلم کی قرار واقعی سزا ملتی ہے اور نہ ہی مظلوم کی کماحقہ داد رسی ہوتی ہے ۔ چناچہ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہاں اخلاقی قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چناچہ جب نیکی ‘ انصاف ‘ دیانت داری جیسے الفاظ عملی طور پر بےمعنی اور بےوقعت نظرآتے ہیں تو وہ سرکشی اور َمن مرضی کے راستے پر چل نکلتا ہے اور حد بندگی سے تجاوز کرنے لگتا ہے۔
یقینا تجھے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اب اگلی آیت میں انسان کی اس سرکشی اور بغاوت کا علاج بتایا جا رہا ہے ۔ اس کا علاج اس یاد دہانی میں ہے یقینا تجھے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ “- گویا انسان کو راہ راست پر رکھنے کا جو موثر ترین علاج ہے وہ ہے عقیدۂ آخرت پر پختہ یقین ۔ یعنی یہ یقین کہ ایک دن اسے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے اور وہ عدالت بھی ایسی ہے جہاں ذرّہ برابر بھی کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکے گی۔ گویا یہ عقیدۂ آخرت پر پختہ یقین اور قیامت کے دن کی پیشی کا خوف ہی ہے جو انسان کے اندر خود احتسابی کا احساس اجاگر کرتا ہے ۔
کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو روکتا ہے۔
ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ ابو جہل کے ایک انتہائی بُرے عمل کو بیان کر رہے ہیں۔ ابوجہل کی یہ عادت تھی کہ جب بھی وہ نبی کریم ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا، تو وہ آگ بگولہ ہو جاتا اور آپ ؐ کو نماز سے روکنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ابوجہل نے نبی کریم ﷺ کو نماز پڑھنے سے منع کیا اور لوگوں سے کہا تھا کہ اگر میں اُنہیں ایسا کرتا دیکھوں گا تو ( مَعَاذَ اللّٰہ) گردن پاؤں سے کچل ڈالوں گا اور چہرہ خاک میں ملادوں گا ، اس کے جواب اور اس کو ملامت کرنے کے لئے یہ آیات آئی ہیں ان میں فرمایا کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے، اور یہاں صرف اس جملہ پر اکتفا کیا گیا کہ ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، آگے دیکھنے کے بعد کیا حشر ہوگا اس کے ذکر نہ کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہولناک انجام قابل تصور نہیں۔
کیا تم نے غور کیا اگر وہ شخص ہدایت پر ہوتا ؟
یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟
یہاں ان آیات میں اس تاسف کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بڑا بد نصیب وہ ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ اچھا موقع دے اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ابو جہل نبی کریمﷺ کا قرابت دار ہونے کے ناطے خود ہدایت کو قبول کرتا اور اسی تقوی کا حکم دیتا جو نبی کریمﷺ دے رہے تھے۔ لیکن وہ آپؐ مخالف بن گیا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر بیان کر رہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کامل رُشدو ہدایت کے راستہ پر ہیں اور لوگوں کو تقوٰی کا حکم دیتے ہیں۔ یعنی اخلاص، توحید اور عمل صالح کی تعلیم، جس سے جہنم کی آگ سے انسان بچ سکتا ہے۔ تو کیا یہ چیزیں ( نماز پڑھنا اور تقویٰ کی تعلیم دینا ) ایسی ہیں کہ ان کی مخالفت کی جائے اور اس پر اس کو دھمکیاں دیں جائیں؟
کیا تم نے سوچا کہ اس نے جو جھٹلایا ہے اور منہ موڑ لیا ہے۔
کیا یہ جانتا نہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے!
کیا ابو جہل کو خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی اس بےہودہ حرکت کو دیکھ رہے ہیں اسے ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اس آیت میں ہر صاحبِ عقل سے پوچھا جا رہا ہے کہ تم نے دیکھی اس شخص کی حرکت جو خدا کی عبادت کرنے سے ایک بندے کو روکتا ہے؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر وہ بندہ راہ راست پر ہو ، یا لوگوں کو خدا سے ڈرنے اور برے کاموں سے روکنے کی کوشش کرتا ہو ، اور یہ منع کرنے والا حق کو جھٹلاتا اور اس سے منہ موڑتا ہو ، تو اس کی یہ حرکت کیسی ہے؟ کیا یہ شخص یہ روش اختیار کرسکتا تھا اگر اسے یہ معلوم ہوتا کہ اللہ تعالی اس بندے کو دیکھ رہا ہے جو حق کو جھٹلانے اور اس سے روگردانی کرنے میں لگا ہوا ہے؟ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومی کو اللہ تعالی کا دیکھنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ظالم کو سزا دے گا اور مظلوم کی داد رسی کرے گا۔
ہرگز نہیں! اگر یہ باز نہ آیا تو ہم گھسیٹیں گے اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر۔
وہ پیشانی کہ جو خطاکار ہے جھوٹی ہے۔
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ابوجہل ہمارے رسول کی ایذا رسانی سے باز نہیں آیا اور انہیں مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے روکنے کی دوبارہ کوشش کی تو ہم اسے اس کی جھوٹی اور گناہوں میں ملوث پیشانی سے پکڑ لیں گے اور گھسیٹتے ہوئے جہنم میں پہنچا دیں گے۔
تو وہ بلا لے اپنی مجلس کے لوگوں کو۔
ہم بھی بلا لیں گے جہنم کے فرشتوں کو۔
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل آیا اور کہنے لگا: کیا میں نے تمہیں نماز پڑھنے سے روکا نہیں تھا؟ تو خوب جانتے ہو کہ مجھ سے زیادہ دوست اور مددگار کسی کے پاس نہیں ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی۔
چناںچہ ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ ابو جہل کو آگاہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ان حرکتوں سے باز آجائے اور یقین کرلے کہ آئندہ وہ ہمارے رسول کو ایذا نہیں پہنچا سکے گا، اس وقت اگر وہ اپنی مجلس اور قوم کے ان لوگوں کو بلانا چاہے تو بلا لے جن کے بل بوتے پر وہ آپ کو نماز سے روکنا چاہتا ہے۔ ہم بھی جہنم کے دارغوں کو بلا لیں گے جن کا مقابلہ کرنے کی طاقت ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ ہمارے فرشتے اس کو ہلاک و برباد کردیں گے اور اس کے خلاف ہمارے رسولِ کریم ﷺ کی مدد کریں گے۔
کوئی بات نہیں ! آپ اس کی بات نہ مانیے آپ سجدہ کیجیے اور (اللہ سے) قریب ہوجایئے !
اس سورۃ کی یہ آخری آیت نبی کریم ﷺ کو ہدایت ہے کہ ابوجہل کی بات پر کان نہ دھریں اور سجدہ اور نماز میں مشغول رہیں کہ یہی اللہ تعالیٰ کے قرب کا راستہ ہے۔ یہاں اس آیت میں نبی کریمﷺ کو حکم دیا جارہا ہے کہ آپؐ اس جھوٹے، غلط کار شخص کی ایک نہ سنیے۔ یہ اگر آپ کو نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے تو اس کی پروا نہ کیجیے۔ آپ اپنے پروردگار کی جناب میں سجدے کرتے رہیے اور کثرت سجود سے اس کا قرب حاصل کرتے رہیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِنسان کو سجدے کی حالت میں اﷲ تعالیٰ کا خاص قرب عطا ہوتا ہے۔
یہ آیت سجدے کی آیت ہے، اور اس کی تلاوت کرنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔
ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے اور اپنا قُرب حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے