سورۃ الضحی قرآن کریم کی 93ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔ سورۃ الضحی کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو اسلام کے ابتدائی ایام میں مکہ میں نازل ہوئی تھی، سورۃ الضحی گیارہ آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، الضحی کے معنی لفظی طور پر، “صبح کے اوقات” کے ہیں۔ اور اس سورۃ کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے صبح کے اوقات کی قسم ارشاد فرمائی اس مناسبت سے سورۃ مبارکہ کا نام سورۃ ’الضحیٰ‘ ہے جس سے اس سورۃ کا آغاز فرمایا جارہا ہے۔
ابتدائے اسلام میں جب کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں تھے چند دنوں تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کا سلسلہ موقوف ہو گیا، تو کچھ کافروں نے آپؐ کو یہ طعنہ دینا شروع کر دیا کہ تمہارا رب تم سے ناراض ہو گیا ہے؛ اس لیے اب تمارے پاس ان کی طرف سے وحی نہیں آ رہی ہے۔
اس طرح کے طعنوں اور دل خراش باتوں کو سن کر یقیناً انسان تکلیف اور درد محسوس کرتا ہے؛ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی تسلّی کے لیے اور امّت کی تعلیم کے لیے مذکورہ سورۃ نازل فرمائی اور اس میں بیان فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مقرّب بندے ہیں اور کچھ مصائب و آلام سے دو چار ہیں، انہیں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے یا ان سے ناراض ہو گیا ہے۔
اس سورۂ مبارکہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی شخصیت کے بارے میں کلام کیا گیا ہے اور ان عنایات بےپایاں اور احسانات عظیم کا تذکرہ فرمایا جارہا ہے جو رحمٰن و رحیم رب العلمین نے اپنے محبوب ترین بندے اور رؤف رحیم رسول پر فرمائیں۔ بعد ازاں اس رحمت للعالمین کو اپنی مخلوق پر ابر رحمت بن کر برسنے کے جو سلیقے اور آداب سکھائے ان کا ذکر ہورہا ہے۔
یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الضحی کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔
قسم ہے صبح کے وقت کی۔ اور قسم ہے رات کی جب چھا جائے۔ تمہارے ربّ نے تم کو ہر گز نہیں چھوڑا اور نہ وہ بیزار ہوا۔
سورۃ کی ان ابتدائی آیاتِ کریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے دن کی روشنی پر اور رات کے چھا جانے پر قسم ارشاد فرمائی ہے۔ رات میں اندھیرا اور سکون ہے ‘ جبکہ دن اجالے اور حرکت کا مظہر ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک پہلی آیت میں ’’ضُحٰی‘‘سے وہ وقت مراد ہے جس وقت سورج بلند ہوتا ہے، اور بعض مفسرین کے نزدیک یہاں ’’ضُحٰی‘‘ سے پورا دن مراد ہے۔ جبکہ دوسری آیت میں رات کے لیے سجی استعمال ہوا ہے جس میں صرف تاریکی چھانے ہی کا نہیں بلکہ سکوت اور سکون طاری ہو جانے کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ یعنی جب اندھیرا مکمل چھا جائے، اس وقت ہر چیز ساکن ہوجاتی ہے۔
ان دو آیات میں رات اور دن کی متضاد خصوصیات کو اس فرمان پر بطور شہادت پیش کیا گیا کہ : ” آپؐ کے رب نے آپ کو چھوڑا نہیں اور نہ ہی وہ آپؐ سے ناراض ہوا ہے۔ “
یعنی وحی کے تسلسل میں یہ وقفہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ سے ناراض ہوگیا ہے‘ بلکہ یہ وقفہ ہماری حکمت و مشیت کا حصہ اور آپؐ کی تربیت کا جزو تھا۔ ظاہر ہے نظام کائنات میں دن کے اجالے کے ساتھ رات کی تاریکی کا وجود بھی ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ دونوں اوقات کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ اگر ہمیشہ دن ہی رہتا تو یہ بھی لوگوں اور جانداروں کے لیے سخت اذیت کا باعث بن جاتا اور اگر ہمیشہ رات رہتی تو بھی یہی بات تھی۔ وحی کے نزول کا وقت آپؐ کے لیے اتنا اعصاب شکن اور تکلیف دہ ہوتا تھا کہ سردیوں میں بھی آپ کو پسینہ چھوٹ جاتا تھا لہذا ضروری تھا کہ وحی کے بعد آپ کو آرام کا وقفہ دیا جائے اور یہ وقفہ ابتداًء زیادہ تھا۔ پھر جب آپؐ کی طبیعت آہستہ آہستہ اس بار وحی کو برداشت کرنے کے قابل ہوتی گئی تو یہ وقفہ بھی کم ہوتا گیا۔
یقیناً تیرے لئے انجام آغاز سے بہتر ہوگا۔
اس آیتِ کریمہ سے مراد یہ ہے کہ آخرت کی زندگی آپ کے لیے دنیا کی زندگی سے بہتر ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی دنیوی زندگی میں ہر آنے والی حالت پچھلی حالت سے بہتر اور افضل ہوتی چلی جائے گی۔ یعنی اس میں آپؐ کے لیے خصوصی بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو علوم و معارف اور اپنے قرب کے درجات میں ترقّی عطا فرمائیں گے اور اس میں آپ کے لیے دنیوی زندگی کے معاشی مسائل اور عزت و حکومت میں ترقّی کی طرف بھی اشارہ ہے۔
جیسے اس آیت میں حضورﷺ کے لیے خصوصی بشارت ہے، اسی طرح ہر نیک مؤمن کے لیے ہمّت افزائی ہے کہ اس کو ﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا ہر وقت امید وار رہنا چاہیئے۔ لہذا اگر مؤمن پر کوئی مصیبت و پریشانی آئے، تو اس کو چاہیئے کہ رنجیدہ اور غمگین نہ ہو، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔
اور عنقریب آپ ﷺ کا رب آپ ﷺ کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ ﷺ راضی ہوجائیں گے۔
یہ آیتِ کریمہ بھی دراصل حضورﷺ کے لیے تسلی ہی کا ایک انداز ہے۔ یعنی آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں، اس میں ﷲ تعالیٰ نے یہ متعین کر کے نہیں بتایا کہ کیا دیں گےاس میں اللہ کی فتح و نصرت ، لوگوں کا فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا، زمین کے مشارق و مغارب کا آپ کی امت کے قبضے میں آنا، قیامت کے دن آپؐ کو مقام محمود ملنا، شفاعت کبریٰ ، امت کی مغفرت ، غرض وہ سب کچھ شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا اور دے گا۔
جبکہ اس میں ہمارے لیے بھی راہنمائی ہے کہ جب کسی وقت آدمی پر ڈپریشن اور افسردگی کی کیفیت طاری ہو تو اسے چاہیے کہ اس کیفیت میں وہ خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کو گن گن کر یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ کس کس انداز میں اس کی مدد کرتا رہا ہے اور کیسی کیسی مشکلات سے اسے نجات دلاتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ماضی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے سے ایک پریشان حال آدمی کا حوصلہ بڑھتا ہے اور اس کی مثبت سوچ کو تحریک ملتی ہے۔
کیا اس نے نہیں پایا آپ کو یتیم پھر پناہ دی !
اس آیتِ کریمہ میں آپ کے ابتدائی حالات کا بیان ہے، حضورِ نبی کریم ﷺ کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے، چھ برس کے تھے کہ والدہ فوت ہوگئیں، پھر دادا نے پرورش کی۔ آٹھ برس کے تھے کہ وہ بھی فوت ہوگئے، پھر چچا ابوطالب کے دل میں آپ کی ایسی محبت ڈال دی کہ اُنہوں نے آپ کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز رکھ کر پالا تھا۔ یہ سب اسباب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مہیا کئے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنی نعمت کا ذکر فرمایا ہے کہ آپؐ کے یتیم ہونے کے باوجود آپؐ کو سرپرست ایسے عطا کیے جاتے رہے جو اپنی جان سے بڑھ کر آپؑ کو عزیز رکھتے تھے۔
اور رستے سے ناواقف دیکھا تو رستہ دکھایا۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر اپنی ایک اور نعمت کا تذکرہ کیا ہے کہ تم راستے سے ناواقف تھے، تو وہ تمہیں ہم نے بتایا۔ یعنی نبوّت سے قبل رسول اللہ ﷺ شریعت کی تفصیلات سے ناواقف تھے۔ جب آپؐ شعور کی پختگی کی عمر کو پہنچے اور آپؐ نے کائنات کے حقائق کے بارے میں غوروفکر کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب نبوت پر فائز کر کے آپ کی رہنمائی فرمائی اور آپ کو دین کے تمام علوم سے آگاہ کیا اور نوازا جس کے ذریعہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی فرمائے۔
اور اس نے آپ ﷺ کو تنگ دست پایا تو غنی کردیا !
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو مخاطب فرماتے ہوئے اپنی نعمت یاد دلا رہے ہیں کہ آپ یتیم تھے، آپ کے پاس کوئی دولت نہیں تھی۔ آپ کی زندگی کی ابتداء افلاس کی حالت میں ہوئی تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نادار اور بےزر پایا تو آپ کو غنی و مالدار کردیا جس کی ابتداء حضرت خدیجہ کبریٰؓ کے مال میں بطور شرکت مضاربت کے تجارت کرنے سے ہوئی پھر وہ خود آپ کے عقد نکاح میں آ کر ام المومنین ہوئیں تو ان کا سارا مال ہی آپ کی خدمت کے لئے ہوگیا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دولت عطا فرمائی اور آپ کو فقر و غربت سے نکال کر غنی اور مالدار بنا دیا۔
تو آپ ﷺ کسی یتیم پر سختی نہ کریں۔
گزشتہ آیات میں حضور نبی کریمﷺ کی زندگی کے تین مراحل کے حوالے سے تین احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی ترتیب سے آپؐ کو تین ہدایات دی جا رہی ہیں:
جن میں سے پہلی اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ جیسے آپؐ کی یتیمی میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی کفالت وغیرہ کا بندوبست کیا ‘ اسی طرح اب آپؐ بھی یتیموں کی سرپرستی کریں اور انہیں لوگوں کی زیادتیوں سے بچائیں- اس آیت میں اگرچہ خطاب حضور اکرم ﷺ کی ذات سے ھے لیکن یہ احکام تمام امّت کے لیے ھیں۔
اور آپ ﷺ کسی سائل کو نہ جھڑکیں۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ سے فرما رہے ہیں کہ اگر آپ کے پاس کوئی سائل آئے، تو اس کو نہ جھڑکیے اور اس کا خیال رکھیے۔ ایک وقت تھا جب آپؐ حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ہم نے آپؐ کو ہدایت عطا فرمائی تھی۔ اب اگر آپؐ کے پاس کوئی سائل اپنی حاجت لے کر آئے تو اس کی حاجت روائی کریں اور اسے جھڑکیں نہیں۔ ظاہر ہے سائل بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کوئی مالی معاونت کے لیے سوال کرتا ہے تو کوئی علم کی تلاش میں لوگوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔ اگر کوئی عذر ہو تو نرمی سے معذرت کرلینی چاہئے۔ آپ کے اس طرزِعمل کو دیکھ کر آپ کی امّت بھی غریبوں اور تنگ دستوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گی اور ان کا خیال رکھے گی۔
اور اپنے ربّ کی نعمت کا اظہار کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ رسولِ کریم ﷺ کو خطاب فرماتے ہوئے حکم دے رہے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا تذکرہ کرتے رہا کریں۔
یہ ہدایت جو آپؐ کو عطا ہوئی ہے؛ یہ بھی آپؐ کے رب کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر شکر کا تقاضا ہے کہ آپؐ اس کی اس نعمت کا چرچا کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلائیں۔
اس حکم میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ ہدایت کی نعمت کو اگر انسان اپنی ذات تک محدود کر کے بیٹھ رہے تو اس کا یہ طرزعمل بخل کے مترادف ہوگا۔ اور نعمتوں کا چرچا کرنے کا اس لئے حکم فرمایا کہ نعمت کو بیان کرنا شکر گزاری ہے۔ لہٰذا جس کسی کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی دولت سے نوازے اسے چاہیے کہ اس خیر کو عام کرے اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی، تو اس کے لیے ان نعمتوں کا تذکرہ کرنا لوگوں کے سامنے جائز ہے۔ بشرطیکہ وہ فخر نہ کرے اور نہ ہی ان انعامات و احسانات کو اپنا ذاتی کمال سمجھے؛ بلکہ ان کو محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم سمجھے۔
ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نعمتوں پر شکر ادا کرنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے