سورۃ الفجر: عروج و زوال
اسلام

سورۃ الفجر: عروج و زوال

سورۃ الفجر قرآن کریم کی 89ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ الفجر کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو مکہ میں نازل ہوئی تھی، مگر اس کا نزول اس زمانے میں ہوا جب مکہ میں کفارِ مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں کے خلاف ظلم وستم کی حد کردی تھی۔ سورۃ الفجر تیس آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، الفجر کے معنی لفظی طور پر، “صبح” کے ہیں۔ اور اس سورۃ کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے الفجر یعنی صبح کی قسم ارشاد فرمائی ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اللّٰہ کی طرف سے فیّوض و برکات عام ہوتے ہیں۔ اس مناسبت سے سورۃ مبارکہ کا نام سورۃ الفجر ہے۔

سورۂ مبارکہ کی ابتدائی آیات میں فجر یعنی صبح کی قسم ارشاد فرمانے کے ساتھ ساتھ ﷲ تعالیٰ نے دس راتوں، جفت اور طاق اور گزرتی ہوئی رات کی قسم ارشاد فرماتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا ان کی قسم اہل عقل و دانش کے واسطے کافی نہیں ہے؟

مزید اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد (اونچے ستونوں والے ارم) اور قوم ثمود، قوم فرعون کا عروج اور ان کے فساد و سرکشی کے باعث ان کے زوال اور انجام کو بیان کیا ہے۔

علاوہ ازیں اس سورۂ مبارکہ میں انسان کی آزمائش کا بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ بندوں کو نعمت و عزت دے کر بھی آزماتا ہے اور واپس لے کر بھی آزماتا ہے۔ اور اس آزمائش میں ناکامی کے اسباب بھی بیان کیے ہیں۔

سورۃ مبارکہ کے آخر میں قیامت کے دن جو زلزلے اور ہولناک واقعات پیش آئیں گے ان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انسان دو قسموں میں تقسیم ہوجائیں گے، ایک وہ جو اللہ کے غضب کے حقدار ہوں گے اور دوسرے نفس مؤمن، جنہیں اپنے رب کی طرف لوٹنے اور جنت میں داخل ہونے کے لئے کہا جائے گا۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الفجر کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

قسم ہے فجر کی۔ اور دس راتوں کی۔ اور جفت کی اور طاق کی۔ اور رات کی جب وہ گزرنے لگے۔ کیا اس میں کوئی قسم (دلیل) ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل مند ہیں؟ 

سورۃ مبارکہ کا آغاز پانچ قَسموں سے ہوتا ہے، سورۃ کی پہلی آیتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے صبح کی قسم ارشاد فرمائی ہے۔ ساتھ ساتھ اگلی آیات میں ﷲ تعالیٰ نے دس راتوں، جفت اور طاق اور گزرتی ہوئی رات کی قسم ارشاد فرمائی ہے۔ مفسرین کے نزدیک دس راتوں سے مراد ذُوالحجہ کے مہینے کی پہلی دس راتیں ہیں، جن کو اﷲ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے، اور اس میں عبادت کا بہت ثواب ہے۔ ان ساری قسموں کو ارشاد فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا عقل والوں کے لیے یہ قسمیں کافی نہیں ہیں؟ کہ کتنی بڑی قسمیں ہم نے کھائی ہیں۔  

کیا تم نے دیکھا نہیں کیا کیا تھا آپ کے رب نے عاد کے ساتھ؟ وہ ارم جو ستونوں والے تھے۔ جس کی مانند (کوئی قوم) ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی۔ اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانوں کو تراشا تھا۔ اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا۔ جنہوں نے ملکوں میں سرکشی اختیار کی تھی۔ سو انہوں نے ان میں بکثرت فساد پھیلا دیا تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا نازل کیا۔ بیشک آپ کا رب تو تاک میں ہے۔

ابتدائی آیات میں شہادتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قوم عاد کا ذکر کیا۔ قوم عاد کو عاد اولیٰ بھی کہا جاتا ہے اور عاد ارم بھی۔ عاد ارم وہ اس لحاظ سے ہیں کہ ارم بن سام بن نوح کی اولاد تھے اور ذات العماد کی کئی توجیہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خود بہت بلند وبالا قد و قامت رکھتے تھے۔ دوسری یہ کہ بلند وبالا عمارتیں بنانے کا آغاز انہوں نے ہی کیا تھا۔ تیسری یہ کہ جب وہ سفر کرتے تھے تو اپنے خیمے نصب کرنے کے لیے بہت اونچی اور مضبوط لکڑیاں استعمال کرتے تھے جیسے وہ ستون ہیں۔ یعنی اتنی بلند قامت، زور آور اور مضبوط قوم روئے زمین پر اور کہیں موجود نہ تھی۔ 

دوسری قوم جس اک ان آیات میں ذکر کیا گیا وہ قومِ ثمود تھی۔ یہ ماہر سنگ تراش تھی۔ پہاڑوں کے اندر اپنے مکان تو کجا شہروں کے شہر پتھروں کو تراش تراش کر بنا رکھے تھے۔

تیسری سرکش قوم جس کا تذکرہ کیا گیا وہ فرعون اور اس کی قوم تھی۔ اور فرعون کو میخوں والا کہنے کی وجہ یہ تھی کہ فرعون بدبخت کی عادت یہ تھی کہ جب کسی کو سزا دیتا تو اس کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑ دیتا تھا اور سانپ اور بچھو اوپر چھوڑ دیتا تھا سزا کے لیے۔

ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب اقوام آخرت کی منکر تھیں۔ چناچہ یہ سب قومیں اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار بنیں اور دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔ پھر ﷲ نے فرمایا کہ  بیشک آپ کا رب تو (سرکشوں اور مفسدوں کی) تاک میں ہے۔  یعنی کوئی فرد ہو یا کوئی قوم ‘ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے سرکشی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اس جرم کی سزا ضرور دے گا۔ 

انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا ربّ اسے آزماتا ہے تو اسے عزت دیتا ہے اور نعمتیں عطا کرتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت دی! اور جب وہ اسے آزماتا ہے پھر اس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا !نہیں ! بلکہ تم لوگ یتیم کی عزت نہیں کرتے۔ اور نہ ہی تم لوگ آپس میں مسکینوں کو کھلانے کی ترغیب دیتے ہو۔ اور تم ساری کی ساری میراث سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔ اور تم مال سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہو۔

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کی دونوں طرح سے آزمائش کرتا ہے۔ نعمتوں اور مال و دولت کی فراوانی سے بھی کہ آیا انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر بجا لاتا ہے؟ اور رزق کی تنگی سے بھی کہ آیا انسان ایسے اوقات میں صبر سے کام لیتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی و مطمئن رہتا ہے؟ جب اس پر انعامات کی بارش ہو رہی ہوتی ہے تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میں آزمائش میں پڑا ہوا ہوں بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ آج کل مجھ پر بڑا مہربان ہے اور جب تنگی کا دور آتا ہے۔ اس وقت بھی وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میری آزمائش کی جارہی ہے۔ گویا اگر تنگ دست ہو تو وہ ذلیل ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دنیا میں جو آسودہ حال ہے اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے اور جو تنگ دست ہے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ بات ہرگز درست نہیں، دنیا کی آسودہ حالی یا بدحالی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے کہ کافر خوش حالی میں سرکشی اور تنگی میں شکوہ و ناشکری کر کے ناکام ہوتے ہیں اور مومن نعمت پر شکر کے ساتھ اور مصیبت میں صبر کیساتھ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ 

ان آیات کے دوسرے حصے میں اس آزمائش میں ناکامی کے اسباب بیان کرتے ہوئے ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارا حال تو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ خوش حالی میں نعمت کا شکر ادا کرو اور بطبور شکر مستحقین پر خرچ کرو، تم نہ تو یتیم کے ساتھ عزت کا برتاؤ کرتے ہو، نہ مسکین کو خود کھانا کھلاتے ہو اور نہ ہی کسی دوسرے کو ترغیب دیتے ہو۔

تیسری بری خصلت یہ بیان فرمائی کہ تم میراث کا مال حلال و حرام سب کو جمع کرکے کھا جاتے ہو اپنے حصے کے ساتھ دوسروں کا حصہ بھی غضب کرلیتے ہو۔ دنیوی مال و دولت کی محبت تمہارے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یعنی جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمہیں کوئی فکر نہیں ۔ جس طریقے سے بھی مال حاصل کیا جا سکتا ہو اسے حاصل کرنے میں تمہیں کوئی تامل نہیں ہو تا ۔ اور خواہ کتنا ہی مال مل جائے تمہاری حرص و طمع کی آگ کبھی نہیں بجھتی ۔

ہرگز نہیں ! جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ہموار کردیا جائے گا۔ اور آپ کا رب جلوہ فرما ہوگا جب کہ فرشتے قطار در قطار حاضر ہوں گے۔ اور لے آئی جائے گی اس روز جہنم بھی اس دن انسان کو سمجھ آئے گی لیکن اب سمجھنے کا کیا فائدہ! وہ کہے گا : اے کاش میں نے اپنی زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا! تو اس دن اللہ جو عذاب دے گا ویسا عذاب کوئی نہیں دے سکتا۔ اور نہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا

ان آیات میں قیامت کے ہولناک حالات کا بیان ہو رہا ہے کہ اس دن زمین کو ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔  یعنی زمین پر متواتر زلزلوں اور ضربوں سے اس کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور سب نشیب و فراز برابر کردیے جائیں گے اور زمین ایک چٹیل میدان بنادی جائے گی۔ میدانِ حشر اسی زمین پر قائم ہوگا۔ 

پھر زمین پر اللہ تعالیٰ کا نزول اجلال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی کے ساتھ فرشتے نازل ہوں گے۔ تمام فرشتے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت لگے گی‘ حساب کتاب ہوگا اور یوں قصہ زمین برسرزمین ہی طے ہوگا۔

جہنم کو گھسیٹ کر میدان محشر کے قریب لایا جائے گا۔ اس کی ستر ہزار لگا میں ہوں گی، ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔ یعنی جب آخرت اور جنت و دوزخ کے منکرین جہنم کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ آج ہمیں جو بھی نصیحت کی جائے اور حکم دیا جائے ہم اسے ماننے کو تیار ہیں۔ مگر اس وقت چونکہ ان کی فرمانبرداری اختیاری نہیں اضطراری ہوگی۔ ان کا ایمان لانا بالغیب نہیں بلکہ بالشہادت ہوگا لہذا اس کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ کسی چیز کو دیکھ کر تو ہر کوئی یقین کر ہی لیتا ہے۔ اس دن ایسے لوگ بڑی حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں یہ نصیحت قبول کرلی ہوتی۔ اور آج کے دن کے لیے ہم نے بھی کچھ اچھے کام کیے ہوتے۔

ایسے لوگوں کو اس اس دن ایسی سخت مار پڑے گی اور سزا ملے گی جیسی کوئی دوسرا دے ہی نہیں سکتا۔ فرشتے ان کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں ڈال کر جہنم میں پھینک دیں گے پھر اوپر سے جہنم کو بند کردیا جائے گا۔ پھ یہ کہ اس عذاب سے نجات کی انہیں کوئی صورت نظر نہ آئے گی۔ علاوہ ازیں یہ عذاب وقتی اور عارضی نہیں بلکہ مستقل اور دائمی ہوگا۔

اے اطمینان پانے والی روح! اب لوٹ جائو اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تم اس سے راضی وہ تم سے راضی۔ تو داخل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہو جا میری جنت میں!

سورۃ کی ان آخری آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے میدانِ حشر میں خوش قسمت مومنین کا احوال بیان کیا ہے: نفس مطمئنہ کو مخاطب کر کے انہیں ﷲ کی رضا حاصل ہونے کی خوشخبری سنائی جائے گی اور یہ حکم دیا جائے گا کہ اللہ کے خاص بندوں میں شامل ہو جا اور جنت میں داخل ہو جا۔ اس میں پہلے اللہ کے صالح اور مخلص بندوں میں شامل ہونے کا حکم ہے پھر جنت میں داخل ہونے کا، اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جنت میں داخل ہونا اس پر موقوف ہے کہ پہلے اللہ کے صالح مخلص بندوں کے زمرہ میں شامل ہو ان سب کے ساتھ ہی جنت میں داخل ہوگا۔ 

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی آزمائش میں کامیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سے راضی ہو جائے۔ آمین

:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *