سورۃ الفلق : دنیاوی شرور وآفات سے پناہ
اسلام

سورۃ الفلق : دنیاوی شرور وآفات سے پناہ

سورۃ الفلق قرآن مجید کی 113ویں سورت ہے۔ یہ قرآن مجید کی آخری دو سورتوں میں سے ایک ہے، سورۃ الفلق اور الناس دونوں سورتوں کا نزول بیک وقت ہوا۔ ان کے مفہوم، معنیٰ اور مقصد کے اعتبار سے ان میں بے حد مشابہت ہےاس لیے انہیں معوذتین کے ایک نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

اول سورۃ یعنی سورۃ الفلق میں دنیاوی آفات سے پناہ مانگنے کی تعلیم ہے اور دوسری سورۃ یعنی سورۃ الناس میں دینی یعنی اخروی آفات سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ نعمتیں دو ہی طرح کی ہیں دنیوی یا مادی نعمتیں جیسے مال دولت، اولاد، منصب و اقتدار وغیرہ اور دوسرے دینی یا معنوی جیسے ایمان، اسلام، اخلاق حسنہ وغیرہ. 

سورۃ الفلق میں ایک رکوع اور پانچ آیتیں ہیں۔ یہ مکی سورۃ ہے۔ سورۃ الفلق کا نام پہلی آیت سے لیا گیا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ صبح کے رب سے پناہ مانگیں۔

کہو کہ میں پناہ میں آتا ہوں صبح کے رب کی۔

پناہ مانگنے میں اللّٰہ تعالیٰ کی صفت ’’ صبح کے رب‘‘ کو اس لئے  منسوب کیا ہےکہ اللّٰہ تعالیٰ صبح پیدا کرکے رات کی تاریکی دور فرماتا ہے تو وہ ا س پر بھی قادر ہے کہ پناہ مانگنے والے سے وہ حالات دور فرما دے جن سے وہ خوف زدہ ہے

اس کی تمام مخلوقات کے شر سے۔

اس آیت میں ہر مخلوق کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے ،خواہ جاندار ہو یا بے جان بلکہ ہر اس چیز سے پناہ مانگی ہے جس سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن یہاں مخلوق سے مراد خاص ابلیس ہے جس سے بدتر مخلوق میں کوئی نہیں۔ 

اے پروردگار تیری جس جس مخلوق میں شر کے جو جو پہلو پائے جاتے ہیں میں ان میں سے ہر قسم کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں

اور (خاص طور پر) اندھیرے کے شر سے جب وہ چھا جائے۔

‘غاسق’ اندھیری رات کو کہتے ہیں جب اندھیری رات پھیل جاتی ہے تو اس کا شر بھی بڑھ جاتا ہے.کیونکہ بالخصوص اسی وقت جنات و شیاطین، موذی جانوروں، چوروں ڈاکوؤں کے پھیلنے اور دشمنوں کے حملہ کرنے کا وقت ہوتا ہے اور جادو کی تاثیر بھی رات میں زیادہ ہوتی ہے. اس لیے اس کے شر سے  پناہ مانگی گئی ہے۔

اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہیں باندھ کر پھونکیں مارتی ہیں۔

اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں۔ جادوگر، پڑھ پڑھ کر پھونک مارتے اور گرہ لگاتے جاتے ہیں۔ عام طور پر جس پر جادو کرنا ہوتا ہے اس کے بال یا کوئی چیز حاصل کرکے اس پر یہ عمل کیا جاتا ہے۔ یعنی جادوگر عورتوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔ 

اور حسد کرنے والے کے شر سے بھی جب وہ حسد کرے۔

حسد والا وہ ہے جو دوسرے کی نعمت چھن جانے کی تمنا کرے حسد بدترین صفت ہے اور یہی سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں ابلیس سے سرزد ہوا چنانچہ اس سے بھی پناہ طلب کی گئی ہے۔ کیوں کہ حسد ایک نہایت بری اخلاقی بیماری ہے، جو نیکیوں کو کھا جاتی ہے۔

سورۃ الفلق بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ سے دنیاوی شرور وآفات سے پناہ کی درخواست ہے۔ اس سورۃ میں ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اپنی تمام مخلوقات کے شر سے محفوظ رکھے جن میں تاریکی میں ہونے والے جادو اور حسد جیسے بد ترین جرائم شامل ہیں اس نوعیت کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہ تو موثر ہوسکتی ہیں اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس لیے ان کے شر سے بچنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ انسان خود کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دے دے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے تمام شرور و آفات سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین

:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے:

مزید دلچسپ مضامین