سورۃ الغاشیہ: جنت اور جہنم
اسلام

سورۃ الغاشیہ: جنت اور جہنم

سورۃ الغاشیہ قرآن کریم کی 88ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ الغاشیہ کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو مکہ میں نازل ہوئی تھی، اس سورۃ کا نزول اس زمانے میں ہوا جب حضور ﷺ تبلیغِ عام شروع کر چکے تھے اور مکہ کے لوگ بالعموم اسے سن سن کر نظر انداز کیے جا رہے تھے۔ سورۃ الغاشیہ چھبیس آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، الغاشیہ کے معنی لفظی طور پر، “چھا جانے والی” کے ہیں۔ سورۃ مبارکہ کا نام سورۃ الغاشیہ، سورۃ کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔

سورۃ الغاشیہ کا مرکزی مضمون عقیدہ توحید، رسالت اور آخرت سمجھانا اور لوگوں کو برے انجام سے ڈرانا ہے جو اس کو سمجھنے سے انکار پر اصرار کرتے ہیں۔

سورۃ مبارکہ کی ابتدائی آیات میں قیامت کے دن انسانوں کو ان کے دو مختلف انجام سے خبردار کیا ہے۔ ایک وہ جو جہنم میں جائیں گے اور انہیں سخت عذاب جھیلنے ہوں گے۔ دوسرے وہ جو عالی مقام جنت میں جائیں گے جہاں ان کو بہت سی نعمتیں میسر ہوں گی-

مزید اس سورۃ میں ﷲ تعالیٰ نے انسان کی توجہ اپنی تخلیق اور نشانیوں کی طرف مبذول کروائی ہے کہ انسان کو اپنے اردگرد غور کرنا چاہیئے

سورۃ مبارکہ کے آخر میں ﷲ تعالیٰ رسول ﷲ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ نہیں مانتے تو آپ کا کام صرف نصیحت کرنا ہے، آخرکار انہیں ہمارے پاس آنا ہے۔ اس وقت ہم ان سے پورا پورا حساب لیں گے اور نہ ماننے والوں کو بھاری سزا دیں گے۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الغاشیہ کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

کیا تمہیں اُس چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے؟ بہت سے چہرے اس دن ذلیل ہوں گے۔ محنت کرنے والے تھکے ہوئے۔ وہ داخل ہوں گے دہکتی ہوئی آگ میں۔ انہیں پلایا جائے گا پانی ایک کھولتے ہوئے چشمے سے۔ نہیں ہوگا ان کے لیے کھانے کو کچھ بھی سوائے خاردار جھاڑیوں کے۔ جو نہ تو موٹا کرے اور نہ ہی بھوک مٹائے۔ 

سورۃ مبارکہ کے آغاز میں ﷲ تعالیٰ رسول ﷲ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے آنے والی آفت سے خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کیا آپ کے پاس چھا جانے والی قیامت کی خبر پہنچی ہے؟ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام غاشیہ بھی ہے یعنی چھا جانے والی، قیامت کو غاشیہ اس لئے کہا جاتا ہے؛ کیونکہ اس کی ہولناکیاں جو پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔ 

قیامت میں دو فریق مومن و کافر الگ الگ ہو جائینگے ان کے چہرے الگ الگ پہچانے جائیں گے۔ ان آیات میں ان لوگوں کے انجام کا تذکرہ کیا گیا ہے جو نافرمان ہوں گے۔ نافرمان اور کافروں کے چہروں کا ایک حال یہ بتلایا ہے کہ وہ خاشعہ ہوں گے، خشوع کے معنے جھکنے اور ذلیل ہونے کے ہیں۔ ان کے چہروں پر ذلت اور رسوائی کے آثار نمایاں ہوں گے۔  اور انہیں اتنا پر مشقت عذاب ہو گا کہ اس سے ان کا سخت برا حال ہوگا۔

اور پھر جہنم میں داخل ہوں گے جس کی آگ کی گرمی دنیا کی آگ کی طرح کسی وقت کم یا ختم ہونے والی نہیں، اور دوزخ میں کھولتے ہوئے چشمہ سے پانی پلائے جائیں گے اور ان کو ماسوائے ایک خاردار درخت کے اور کوئی کھانا نصیب نہیں ہوگا؛ غرض وہ درخت ایک نہایت تلخ، بدمزہ، اور ناپاک ترین کھانا ہوگا جو جزو بدن بنے گا یعنی نہ فربہ کرے گا اور نہ بھوک ہی کو دور کرے گا۔

بہت سے چہرے اس روز تروتازہ ہوں گے۔ وہ اپنی کوشش پر راضی ہوں گے۔ عالی مقام جنت میں۔ وہ اس میں کوئی لغو بات نہیں سنیں گے۔ اس میں ایک چشمہ ہے بہتا ہوا۔ اس میں اونچے اونچے تخت ہیں۔ اور جام قرینے سے رکھے ہوئے۔ اور قالین بچھے ہوئے صف در صف۔ اور نفیس مسندیں بچھی ہوئی۔ 

ابتدائی آیات میں کافر بدکاروں کے بیان اور ان کے عذابوں کے ذکرکے بعد اب ان اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کی کیفیت بیان کی ہے کہ سچے مومنین کے چہرے قیامت میں بارونق ہوں گے جن پر خوشی اور آسودگی کے آثار ظاہر ہوں گے یہ اپنے اعمال سے خوش ہوں گے ،

عالی مقام جنت کے بلند بالا خانوں میں ہوں گے جس میں کوئی لغو بات کان میں نہ پڑے گی، نہ اس میں فضول گوئی سنیں گے نہ بری باتیں، سوائے سلام ہی سلام کے اور کچھ نہ ہو گا۔ اور یہ جنت کی ایسی نعمت ہوگی جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کی بڑی بڑی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔

اس میں بہتی ہوئی نہریں ہوں گی، ان میں اونچے اونچے بلند و بالا تخت ہیں جن پر بہترین فرش ہیں، گویہ تخت بہت اونچے اور ضخامت والے ہیں،  مشروب کے بھر پور جام ادھر ادھر قرینے سے چنے ہوئے ہیں جو چاہے جس قسم کا چاہے جس مقدار میں چاہے لے لے اور پی لے، یعنی اس کی حاجت ہی نہ ہو گی کہ وہ طلب کر کے انہیں منگوائیں ۔ اور تکیے ایک قطار میں برابر لگے ہوئے ہیں اور جنتیوں کے لیے سب طرف قالین بچھے پڑے ہیں۔ غرضیکہ یہ اہل جنت کا تذکرہ ہے جو جہنمیوں کے برعکس نہایت آسودہ حال اور ہر قسم کی آسائشوں سے بہرور ہوں گے۔

 تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کو کہ انہیں کیسے بنایا گیا ہے! اور آسمان کو کہ کیسے بلند کیا گیا ہے! اور پہاڑوں کو کہ کیسے گاڑ دیے گئے ہیں! اور زمین کی طرف کہ کیسے بچھا دی گئی ہے!

قیامت کے احوال اور اس میں مومن و کافر کی جزاء و سزا کا بیان فرمانے کے بعد ان آیاتِ کریمہ میں انسانوں کی ہدایت کے لئے ﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی چند نشانیوں میں غور کرنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ اور اللہ کی قدرت کی نشانیاں تو آسمان و زمین میں بیشمار ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے چند نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا یہ لوگ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیوں پر غور نہیں کرتے؟ اونٹ کی ساخت اور اس کی شدت قوت کو نہیں دیکھتے اور آسمان کو نہیں دیکھتے کہ تمام مخلوق پر کس طرح بلند کیا گیا اور پہاڑوں کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ کس طرح انہیں زمین پر قائم کیا گیا کہ کوئی چیز بھی انہیں حرکت نہیں دے سکتی اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی یہ سب نشانیاں ہیں۔

یہاں ان ایسی چار چیزوں کا ذکر فرمایا جو عرب کے بادیہ نشین لوگوں کے مناسب حال ہیں کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو کر بڑے بڑے سفر طے کرتے ہیں اس وقت ان کے سب سے زیادہ قریب اونٹ ہوتا ہے اوپر آسمان اور نیچے زمین اور دائیں بائیں اور آگے پیچھے پہاڑوں کا سلسلہ ہوتا ہے۔ 

 تو آپ یاد دہانی کراتے رہیے آپ تو بس یاد دہانی کرانے والے ہیں۔ آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں۔ 

ان آخری آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ، رسول ﷲ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ  آپؐ کی ذمہ داری صرف تذکیر اور نصیحت تک ہے، کسی کو زبردستی راہ ہدایت پر لانا آپ کا کام نہیں ہے۔

 رسول ﷲ ﷺ کو کافروں کی ہٹ دھرمی سے جو تکلیف ہوتی تھی، اُس پر آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ کہ آپ کا فریضہ صرف تبلیغ کر کے پورا ہوجاتا ہے، آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان بنائیں۔ اس میں ہر مبلغ اور حق کے داعی کے لئے بھی یہ اصول بیان فرمایا گیا ہے کہ اسے اپنا تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے رہنا چاہئے اور یہ نہ سمجھنا چاہئے، کہ وہ ان سے زبردستی اپنی بات منوانے کا ذمہ دار ہے۔

مگر جس نے منہ موڑا اور کفر کیا۔ تو اس کو اللہ عذاب دے گا سب سے بڑا عذاب۔ بیشک ان سب کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ پھر ان کا حساب ہمارے ذمہ ہے۔

سورۃ کی ان آخری آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ کفر کرنے والوں کہ شدید عذاب کی وعید سناتے ہیں۔ کہ انہیں بہرحال ہمارے پاس واپس آنا پڑے گا۔ اس وقت ہم ان سے یقیناً حساب لے لیں گے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں حساب لیے بغیر نہ چھوڑیں۔

بلاشبہ اللہ کے رسولﷺ نے اللہ تعالیٰ کا کلام اور پیغام اپنی بےداغ اور مثالی سیرت کی گواہی کے ساتھ امت تک اس انداز میں پہنچا دیا ہے کہ حق کو سمجھنے کے بارے میں کہیں کوئی ابہام نہیں رہا۔ اب اس کے بعد بھی جو شخص حق سے منہ موڑے گا تو وہ گویا حق کو حق سمجھتے ہوئے اسے ٹھکرائے گا اور اس سے یہی ثابت ہوگا کہ اس کے اندر بھلائی اور خیر کی کوئی رمق موجود ہی نہیں۔ چناچہ ایسا ہر شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدید ترین عذاب کا مستحق ہے۔

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ ہمارے حساب کو آسان فرما دے اور روز قیامت ہمیں روشن چہرہ لوگوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ 

یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *