سورۃ الھمزۃ قرآن کریم کی 104ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔ سورۃ الھمزۃ مکی سورۃ ہے جو کہ نو آیات پر مشتمل ہے، اس سورۃ کا نام الھمزۃ پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔ الھمزۃ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی عیب گوئی کرنے والے کے ہیں۔
مشرکین مکّہ نبی کریم حضرت محمدﷺ سے بغض و عناد رکھتے تھے آپ کو اور آپ کے اصحاب کو طعنہ دیتے، جھوٹے الزامات لگاتے اور بہتان تراشی میں پیش پیش تھے۔ آپ کا مذاق اڑاتے اور غیبت و عیب جوئی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے۔ سورۃ الھمزۃ میں ان لوگوں کی مذمّت بیان کی گئی ہے اس طور پر کہ مسلمانوں کو ان کی برائی سے آگاہ کیا گیا ہے؛ تاکہ وہ ان گناہوں میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الھمزۃ کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔
خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے واﻻ غیبت کرنے بڑی واﻻ ہو.
سورۃ کی اس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جن دو بُرائیوں کا تذکرہ کیا ہے وہ ”همزه“ اور ”لمزه“ یعنی عیب جوئی اور غیبت گوئی ہیں۔ اکثر مفسّرین نے ذکر کیا ہے کہ ”همزه“ کا معنی وہ آدمی ہے جو کسی کے آمنے سامنے اس کو طعنہ دیتا ہے اور بُرا بھلا کہتا ہے اور ”لمزه“ کا معنی وہ آدمی ہے جو دوسرے کے پیٹھ پیچھے اس کے عیوب کا تذکرہ کرتا ہے ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گناہوں میں مبتلا افراد کو ہلاکت و عذاب کی شدید وعید سنائی ہے۔
جو مال جمع کرتا رہا اور اس کو گنتا رہا۔
ایسا عیب جو انسان اپنی زندگی اور زندگی کی ساری جدوجہد مال کمانے اور اس کا حساب رکھنے میں برباد کردیتا ہے۔ زندگی میں مال جمع کرنے اور اسے گنتے رہنے کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، وہ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر مال جمع کرتا رہتا ہے اور ان کے نزدیک انسانی وجود کی تمام اقدار کا خلاصہ یہی ہے سمجھتا ہے کہ عزت و شرف مال جمع کرنے میں ہے جوں جوں اس کا مال بڑھتا جاتا ہے، اس کا تکبر و غرور بڑھتا جاتا ہے۔ دوسروں کی تحقیر، عیب جوئی، استہزاء اور غیبت کرنے سے لذت اٹھانا اس کا شیوہ بن جاتا ہے۔ مال کی بےحد محبّت، لالچ اور طمع اس کو اچھے کاموں میں مال خرچ کرنے سے روکتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ورنہ مطلق مال جمع کرکے رکھنا مذموم نہیں ہے۔ یہ مذموم اسی وقت ہے جب زکوٰۃ وصدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کا اہتمام نہ ہو۔
وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا۔
مال جوڑنے اور گن گن کر رکھنے والا شخص دولت کے نشے میں موت اور اس کے بعد کے انجام کو بھول جاتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے دنیا میں ہمیشہ رکھے گا ور گمان کرنے لگتا ہے کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی جس کی وجہ سے وہ مال کی محبت میں مست رہتا ہے اور نیک عمل کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ گویا اس کے مال نے اسے زندہ جاوید کردیا ہے یعنی ایسے لوگ مال و دولت کے حصول میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ناگزیر موت کے بارے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
ہرگز نہیں وہ تو یقینا جھونک دیا جائے گا حطمہ میں۔
یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا اس کا زعم اور گمان ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے (دنیا میں) ہمیشہ رکھے گا۔ ہر گز نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا گمان غلط ہے، اسے موت آئے گی اور اس عارضی زندگی کے بعد دائمی زندگی آئے گی جس میں اسے اپنے برے اعمال کی سزا بھگتنی ہوگی، اور قیامت کے دن وہ ضرور ضرور حطمہ میں پھینکا جائے گا۔ حُطَمَۃ یعنی توڑ ڈالنے والی ‘ پیس ڈالنے والی ‘ چور چور اور ریزہ ریزہ کردینے والی۔ یہ دوزخ کے ایک خاص طبقے کا نام ہے جس کی آگ اتنی تیز ہوگی کہ اس میں جو شے بھی ڈالی جائے گی اس کو آنِ واحد میں پیس کر رکھ دے گی۔
اور کیا تم جانتے ہو وہ حطمہ کیا ہے ؟
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا: آپ کو کیا معلوم کہ وہ الْحُطَمَةُ یعنی جہنم کیا چیز ہوگی؟ یہ استفہام اس کی ہولناکی کے بیان کے لئے ہے، یعنی وہ ایسی آگ ہوگی کہ تمہاری عقلیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور تمہارا فہم وشعور اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
وہ آگ ہے اللہ کی بھڑکائی ہوئی۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو پچھلی آیت میں کیے جانے سوال کا جواب دیتے ہوے کہا کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی جلائی ہوئی آگ ہوگی جو کبھی سرد نہیں ہوتی جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔ اور وہ اتنی ہولناک آگ ہوگی جو ہرچیز کو نیست و نابود کر دے گی۔
جو دلوں کے اوپر جا چڑھے گی۔
اس آیت میں ﷲ تعالیٰ نے جہنّم کی آگ کی شدّت بیان کرتے ہوے کہا کہ اس آگ کا وصف یہ ہے کہ وہ جسم کے ظاہری حصے کو بھی جلائے گی اور جسم کے اندر بھی پہنچے گی اور دِلوں کو بھی جلائے گی۔ دل ایسی چیز ہے جس میں ذرا سی گرمی برداشت کرنے کی تاب نہیں تو جب جہنم کی آگ اس پر چڑھ جائے گی اور موت نہیں آئے گی تو اس وقت کیا حال ہوگا۔
ویسے تو دنیا کی آگ کے اندر بھی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہر چیز کو جلا ڈالتی ہے لیکن دنیا میں یہ آگ دل تک پہنچ نہیں پاتی کہ انسان کی موت اس سے قبل ہی واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن جہنّم کی آگ کی شدّت کا حال دنیوی آگ سے جداگانہ ہے۔ جہنّم میں ایسا نہیں ہوگا، وہ آگ دلوں تک بھی پہنچ جائے گی، لیکن موت نہیں آئے گی،بلکہ آرزو کے باوجود بھی موت نہیں آئے گی۔
وہ اُن پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی
اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ بیشک وہ (آگ) ان پر بند کردی جائے گی تاکہ اس کی تمام تر حرارت ان پر اثر انداز ہو اور انہیں زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچے۔ اس سے نکلنے کی امید ہمیشہ کے لئے منقطع ہوجائے گی کیونکہ جہنم کے دروازے اور راستے بند کر دیئے جائیں گے، تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے اور وہ بدبخت جہنمی اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔
بڑے اونچے اونچے لمبے ستونوں میں۔
جب اہل جہنّم آگ میں ڈالے جائیں گے تو جہنّم کے دروازوں کی بندش آتشیں لوہے کے ستونوں سے مضبوط کردی جائے گی تاکہ کبھی دروازہ نہ کھلے، یعنی ان کو جہنّم میں اس طرح بند کر دیا جائے گا کہ ان کے لئے وہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملے گا اور وہ اسی میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ بعض مفسرین نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ دروازے بند کر کے آتشیں ستونوں سے اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے جائیں گے۔
سورۃ الھمزۃ میں غیبت، استہزا / عیب جوئی اور ذخیرہ اندوزی جیسی اخلاقی برائیوں کی مذمت کی گئی ہے اور شدید عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے خوب مال جمع کرنے والے افراد کو جہنم کی آگ کی بشارت دی ہے جو مال و دولت کی کثرت کے بل بوتے پرغرور اور تکبر کا اظہار کرتے ہیں اور اسی بناء پر وہ لوگوں کی عیب جوئی کرتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ ان کا مال و دولت انہیں ہمیشہ کیلئے زندہ رکھے گا۔
اور سورۃ کے آخر میں ان کے دردناک انجام کی بات کرتا ہے کہ وہ کیسی حقارت آمیز صورت میں دوزخ میں پھینکے جائیں گے، اور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہر چیز سے پہلے ان کے دل پرمسلط ہو جائے گی اور وہ اسی میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں غیبت اور عیب جوئی جیسے مذموم اعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے