سورۃ الانشقاق: تذکیر آخرت
اسلام

سورۃ الانشقاق: تذکیر آخرت

سورۃ الانشقاق قرآن کریم کی 84ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ الانشقاق کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو مکہ مکرمہ میں ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب قرآن کی دعوت کو مکہ میں برملا جھٹلایا جا رہا تھا اور لوگ یہ ماننے سے انکار کر رہے تھے کہ کبھی قیامت برپا ہوگی اور انہیں اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا پڑے گا۔ سورۃ الانشقاق پچیس آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، الانشقاق کے معنی لفظی طور پر، “پھٹ پڑنے” کے ہیں۔ اور اس سورۃ کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے قیامت کے وقت آسمان کے پھٹ پڑنے کی طرف اشارہ کیا ہے، اسی مناسبت سے سورۃ مبارکہ کو سورۃ الانشقاق کے نام سے مَوسوم کیا گیا ہے۔

اس سورۃ کا مرکزی مضمون اور بنیادی موضوع ” تذکیر آخرت “ ہے۔ اس سورۃ میں نہ صرف قیامت کے حالات بیان فرمائے گئے ہیں بلکہ اس کے برحق ہونے کی دلیل بھی دے دی گئی ہے۔

سورۃ مبارکہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے وقوع قیامت کے احوال بیان کیے ہیں کہ اس روز آسمان و زمین اپنے رب کے حکم کی تعمیل کریں گے آسمان پھٹ جائے گا اور زمین کو پھیلا دیا جائے گا۔

مزید اس سورۃ میں ﷲ تعالیٰ نے روزِ آخرت لوگوں کی دو اقسام کی طرف اشارہ کیا ہے: پہلا گروہ اصحاب یمین کا ہے جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے اور دوسرا گروہ اصحاب شمال کا ہے جن کا نامہ اعمال ان کے پیچھے سے دیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ انسان اس غلط فہمی میں مگن ہے کہ کبھی خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر نہیں ہونا ہے۔ حالانکہ ان کے سارے اعمال کی بازپرس ضرور ہو گی۔ ان کا دنیا کی زندگی سے آخرت کی جزا و سزا تک درجہ بدرجہ پہنچنا یقینی ہے۔

سورۃ مبارکہ کے آخر میں کفار کو دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے جو قرآن کو سن کر خدا کے آگے جھکنے کی بجائے تکذیب کرتے ہیں اور اہل ایمان کو بے حساب اجر کا مژدہ سنایا گیا ہے جو ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الانشقاق کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

جب آسمان پھٹ جائے گا۔ اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گا اور اسے یہی زیب دیتا ہے۔ اور جب زمین کو پھیلا دیا جائے گا۔ اور وہ نکال باہر کرے گی جو کچھ اس کے اندر تھا اور خالی ہوجائے گی۔ اور وہ بھی اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اسے یہی زیب دیتا ہے۔ 

سورۃ مبارکہ کے آغاز میں ﷲ تعالیٰ نے قیامت کے حالات بیان فرمائے ہیں جب آسمان کو  پھٹ جانے کا حکم دیا جائے گا وہ اپنے رب کے حکم پر کاربند ہونے کے لیے اپنے کان لگائے ہوئے ہو گا پھٹنے کا حکم پاتے ہی پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا یعنی وہ اسی لائق ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ بےچوں و چرا اپنے خالق کے حکم پر سرتسلیم خم کرے۔ اس لیے کہ یہ اس اللہ کا حکم ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا جس سے بڑا اور کوئی نہیں جو سب پر غالب ہے اس پر غالب کوئی نہیں، 

اور جب زمین کو کھینچ کر پھیلنے کا حکم دیا جائے گا وہ اپنے رب کے حکم پر کاربند ہونے کے لیے اپنے کان لگائے ہوئے ہو گی، حکم پاتے ہی دراز ہو جائیگی برابر کردی جائے گی اور اپنے رب کا حکم سن لے گی اور اس پر اس کا سننا ضروری ہے، اور اسے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے رب کا حکم سنے اور اس کی اطاعت کرے۔ قیامت کے دن زمین اپنے اندر مدفون تمام انسانوں کے اجسام اور ان کے تمام اجزاء کو نکال کر باہرکرے گی۔ اس کے علاوہ بھی زمین میں جو کچھ معدنیات اور خزانے مخفی ہیں وہ قیامت کے دن نکال کر باہر پھینک دے گی۔ کوئی چیز بھی اس میں چھپی اور دبی ہوئی نہ رہ جائے گی۔ یعنی جس طرح اطاعت کا مظاہرہ آسمان کرے گا، اسی طرح زمین بھی حکم الٰہی بجا لائے گی۔

اے انسان ! تو خوب کوشِش کرتا ہے اپنے رب کی طرف پھر تو اس سے ملنے والا ہے۔ 

اس آیتِ کریمہ میں انسان کو بتایا جارہا ہے کہ اسے چار وناچار ہر حالت میں اپنے رب کے حضور میں پیش کیا جائے گا۔ اِنسان کی پوری زندگی کسی نہ کسی کوشش میں خرچ ہوتی ہے۔ جو نیک لوگ ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کے اَحکام کی تعمیل میں محنت کرتے ہیں، اور جو دُنیا پرست ہیں، وہ صرف دُنیا کے فوائد حاصل کرنے کے لئے محنت کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ہر اِنسان کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ محنت کرتا کرتا اﷲ تعالیٰ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خطاب فرما کر اس کے غور و فکر کے لئے ایک ایسی راہ دکھائی ہے کہ اس میں کچھ بھی عقل و شعور ہو تو وہ اپنی جدوجہد کا رخ صحیح سمت کی طرف پھیر سکتا ہے جو اس کو دین و دنیا میں سلامتی اور عافیت کی ضمانت دے۔ 

تو جس کو دیا جائے گا اس کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں۔ تو اس سے لیا جائے گا بہت ہی آسان حساب۔ اور وہ لوٹے گا اپنے گھر والوں کی طرف خوش ہو کر۔ اور جس کو دیا جائے گا اس کا اعمالنامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے۔ تو اب وہ موت کی طلب کرے گا۔ لیکن وہ داخل ہوگا جہنم میں۔

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزِ حشر تمام اولاد آدم دو گروہوں میں بٹی ہوئی ہو گی۔ ایک گروہ (اصحاب یمین) وہ ہوگا جن کو ازراہ بشارت ان کا صحیفۂ عمل ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا اس وقت ان کی خوشی کی انتہا نہ ہوگی یعنی جس خوش قسمت انسان کا اعمالنامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس سے نہ تو کوئی سوال ہوگا اور نہ ہی اس کے مواخذے کی نوبت آئے گی۔ بس اس کے اعمال نامے کو ایک نظر دیکھ کر اس کی خطائوں کو معاف کردیا جائے گا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص سے نرمی کا معاملہ فرمائے گا۔ اور ان سے بہت آسان حساب لے کر جنت کی بشارت دے دی جائے گی وہ آخرت میں اپنے گھر والوں اور متعلقین کے پاس خوش خوش آئے گا۔

اور دوسرا گروہ اصحاب شمال کا ہے جن کو ان کا نامۂ عمل پس پشت دیا جائے گا۔  قرآن کریم کی اکثر آیات میں ایسے لوگوں کو بائیں ہاتھ میں اعمالنامے دیے جانے کا ذکر ہے۔ فرشتہ ایک مجرم شخص کو جب اس کا اعمالنامہ پکڑانے لگے گا تو وہ اس سے بچنے کے لیے اپنا بایاں ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے چھپالے گا۔ چناچہ اسی حالت میں اعمالنامہ پیچھے سے اس کے بائیں ہاتھ میں تھما دیا جائے گا۔ اس وقت اس کی ایک ہی خواہش ہوگی کہ اسے موت آجائے، یعنی عذاب کے ڈر سے ہلاکت کو پکارے گا، تاکہ وہ مر کر عذاب سے نجات پا جائے نتیجہ یہ کہ آج جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔ 

یقینا وہ اپنے اہل و عیال میں بہت خوش و خرم تھا۔ اسے گمان ہوگیا تھا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آنا ہے۔ کیوں نہیں ! یقینا اس کا رب تو اسے بخوبی دیکھ رہا تھا۔

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ  قیامت کے دن پیٹھ کے پیچھے اعمال نامہ اس کو ملے گا جو دنیا میں اپنی خواہشات میں مگن اور اپنے گھر والوں کے درمیان بڑا خوش تھا، جو آخرت اور آخرت کے محاسبے سے بے خبر اپنے اہل و عیال کے ساتھ عیش و عشرت میں مست رہا۔ ایسے شخص نے دنیا میں بلاشبہ ایک خوشحال اور خوشیوں بھری زندگی گزاری، لیکن آخرت میں اس کے لیے جہنم کی آگ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ 

اس کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ زندہ نہیں ہو گا اور نہ کوئی حساب کتاب ہوگا۔ یعنی اسے یہ خیال تک نہیں تھا کہ دنیا کے ان عیش و عشرت کے بعد بالآخر اسے اپنے پروردگار کے پاس ہی پہنچنا ہے۔ 

ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ، کیوں نہیں یقیناً اس کا حساب ضرور ہونا تھا، ﷲ اس کے اعمال و اقوال اور احوال سب کچھ خوب دیکھ رہا تھا اور اس کا اعمال نامہ بھی تیار کروا رہا تھا، سب باتیں اللہ کی نگاہ میں تھیں۔ اور یہ بات اللہ کی حکمت اور اس کے انصاف کے خلاف تھی کہ جیسے اعمال وہ کر رہا تھا اس کو نظر انداز کردیتا اور اس سے کوئی مؤاخذہ نہ کرتا۔ 

سو قسم کھاتا ہوں شام کی سرخی کی۔ اور رات کی اور ان چیزوں کی جن کو وہ سمیٹے ہوئے ہے۔ اور چاند کی جب وہ پورا ہوجاتا ہے۔ تم لازماً چڑھو گے درجہ بدرجہ۔ 

ان اگلی تین آیاتِ کریمہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چند چیزوں کی قسمیں ارشاد فرمائی ہیں تاکہ لوگ ان میں غور و فکر کر کے عبرت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوں۔ 

جب سورج غروب ہوتا ہے اور رات شروع ہوتی ہے تو افق پر صرف شفق کی سرخی نظر آتی ہے تو پہلی قسم اس شفق کی ارشاد فرمائی، پھر اس کے بعد جب اندھیرا ہو جائے تو دوسری قسم رات کی ارشاد فرمائی، اور پھر جب رات مزید گہری ہو جائے تو جن چیزوں کو رات اپنے اندھیرے میں چھپا لے تو اسے فرمایا ”وَ مَا وَسَقَ“ کہہ کر تیسری قسم اس کی ارشاد فرمائی، پھر جب چاند نکلتا ہے تو چوتھی قسم درجہ بدرجہ بڑھتے ہوئے چاند کی ارشاد فرمائی، ظاہر ہے جب چاند پورا ہوجاتا ہے تو اس کی چاندنی ایک حد تک رات کو روشن کردیتی ہے۔

یہ ساری چیزیں اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، ان کی قسم ارشاد فرما کر یہ فرمایا گیا ہے کہ اِنسان بھی ایک منزل سے دوسری منزل تک سفر کرتا رہے گا، یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو بھی ایک حالت پر دوام نہیں ہے، بلکہ ان اشیاء کی طرح اس کا بھی ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے چلے جاناا یقینی ہے۔ اسی طرح زندگی کے بعد موت، پھر زندگی اور ہر عمل کی جزا و سزا کا ہونا بھی یقینی ہے۔

تو انہیں کیا ہوگیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے؟ اور جب انہیں قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو یہ سجدہ نہیں کرتے؟ 

اس سے پہلی آیات میں جن چیزوں کی قسم ارشاد فرمائی گئی یہ اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم قدرت پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو دیکھ کر کسی عقلمند انسان کے لئے اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، تو ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب کفار کے پاس ایمان لانے میں کیا عذر باقی رہ گیا ہے اور وہ دلائل ظاہر ہونے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ پر کیوں ایمان نہیں لاتے۔ جب ان کے سامنے واضح ہدایات سے بھرا ہوا قرآن پڑھا جاتا ہے اس وقت بھی وہ اللہ کی طرف نہیں جھکتے۔

 یہ سجدہ کی آیت ہے، یعنی اس آیت کو جب عربی میں تلاوت کیا جائے تو پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔

بلکہ یہ کافر تو جھٹلا رہے ہیں۔ اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ (اپنے اندر) کیا بھرے ہوئے ہیں۔ تو ان کو بشارت دے دیجیے دردناک عذاب کی۔ 

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قرآن کو سن کر بھی ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا نہ مسلمانوں کی طرح اس کے آگے جھکتے یا سجدہ کرتے ہیں۔ بلکہ الٹا اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو جھٹلاتے ہیں جو انسانی فطرت میں موجود گواہیوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس کی طرف سے نازل ہوئیں۔ یعنی قرآن کو ہی جھٹلانے لگتے ہیں اور جو کچھ قرآن پیش کرتا ہے سب باتیں جھوٹی ہی سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان لوگوں کے سینے کفر، عداوت، بغض، حسد، تکبر وغیرہ کی غلاظتوں سے بھرے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے یہ اللہ کی آیات کو پہچان لینے کے بعد بھی ان کی تکذیب کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال و اقوال اور ان کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہے اس پر ان کو دردناک عذاب کی خبر دی ہے جو- کہ آخرت میں ان پر واقع ہوگا۔

البتہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔

سورۃ کی اس آخری آیتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے جنہوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے جنت میں ایسا اجر کی بشارت دی ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں، مراد جنت ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، جس کی کوئی نعمت نہ کم ہوگی اور نہ ختم ہوگی۔

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ ہمیں دنیا کے عیش و عشرت میں کھو کر اپنی آخرت سے غافل ہونے سے بچائے اور اپنی آخرت بہتر بنانے کے لئے کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *