سورۃ الکافرون قرآن کریم کی 109ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو آخری پارہ میں ہے۔ اس سورۃ کا نام پہلی آیت سے لیا گیا ہے اس سورۃ کو اس لیے الکافرون کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ کافروں کے بارے میں نازل ہوئی اور آغاز بھی ان سے خطاب کے ساتھ ہوا ہے۔ سورۃ الکافرون ایمان اور کفر کے درمیان تقسیم کرنے والی لکیر ہے، یہ توحید اور کفر/شرک کے درمیان فرق اور صحیح راستے کو غلط سے الگ کرتی ہے
ایک روز سرداران قریش اللہ کے رسول ﷺ سے ملاقات کیلئے آئے انہوں نے کہا: اے محمد ﷺ ہم اس بات پر صلح واتفاق کر لیتے ہیں کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی پرستش کر لیجئے اور ایک سال ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کر لیتے ہیں اسی پیشکش کے جواب میں سورۃ الکافرون نازل ہوئی اور اللہ نے کفار سے مکمل براء ت کا اعلان کرنے کا حکم دے دیا ۔
یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورہ الکافرون کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔
کہہ دو کہ اے کافرو
اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کو کافروں کو صاف صاف بتانے کا حکم دیا گیا ہے قل سے اشارہ ہے کہ میں اپنی طرف سے تمھیں نہیں کہتا بلکہ اللہ کے حکم سے ایسا کرتا ہوں۔
اے کافرو کا خطاب ان کے کفر کی خصوصیت کے پیش نظر ہے نہ کہ ان کی ذات کے۔ اے کافرو… درحقیقت اس کا مطلب ہے: اے وہ لوگو جنہوں نے اللہ کی واحدانیت اور میری رسالت اور میری لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ خواہ وہ یہودی ہوں۔ عیسائی، زرتشتی یا مشرک۔
میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو،
اس سورۃ کی دوسری آیت ہمیں بتاتی ہے کہ کافروں کو یہ بتانا کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت نہیں کرتے۔ اللہ کی عبادت صرف وہ ہے جس کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کا شائبہ تک نہ ہو، اور جس میں انسان اپنی بندگی کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کر دے۔ لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بالکل یَک سُو ہو کر، اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس کی عبادت کریں۔ پس درحقیقت اللہ کو دو یا تین یا بہت سے خداؤں میں سے ایک قرار دینا اور اُس کے ساتھ دوسروں کی بندگی و پرستش کرنا ہی تو وہ اصل کفر ہے جس سے اظہارِ براءت کرنا اس آیت کا مقصود ہے۔
اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں
مشرکین اور کفار یہ کہتے تھے کہ اللہ کی وجود کو تو ہم مانتے ہیں اور اس کی عبادت بھی ہم کرتے ہیں۔ لیکن جو عبادت وہ کرتے ہیں یعنی مشرکانہ عبادت اس میں وہ اللہ کے ساتھ اور شریک بھی ٹھراتے ہیں۔ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کفار کو باور کروا رہے ہیں کہ تم اُس کی عبادت کرنے والے نہیں ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں، بلکہ میں تو خدائے واحد کی عبادت کرتا ہوں یعنی مُوحِّدانہ عبادت۔ اور یہی وہ اصل بات ہے جس کی بنا پر رسول اللہ ﷺ کا دین منکرینِ خدا کے سوا تمام اقسام کے کفار کے دین سے قطعی طور پر الگ ہو جاتا ہے۔
اور نہ میں عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو.
ان آیات میں بظاہر تکرار نظر آتی ہے لیکن درحقیقت اس آیت میں ماضی حال اور مستقبل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یعنی نہ میں نے زمانہ ماضی میں کبھی تمہارے معبودانِ باطل کی پرستش کی اور نہ آئندہ کبھی میں عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور نہ ہی تم مجھ سے اس کی توقع کرسکتے ہو۔ مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کرلوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔
اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔
اور نہ تم اُس معبودِ واحد کی عبادت کر نے والے بنتے نظر آتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، یا بالفاظِ دیگر تم کو بہت سے معبودوں کی بندگی چھوڑ کر ایک معبودِ واحد کی عبادت اختیار کر نے سے جو چِڑ ہے اُس کی بنا پر تم سے یہ توقع نہیں ہے کہ اپنی اِس مشرکانہ عبادت سے باز آ جاؤ گے اور اُس کی عبادت کرنے والے بن جاؤ گے جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور اگر اللہ نے تمہاری قسمت میں ہدایت نہیں لکھی ہے، تو تم اس توحید اور عبادت الہی سے محروم ہی رہو گے۔
تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔
میں تمہارے معبودوں کی بندگی نہیں کر سکتا اور تم میرے معبود کی بندگی کے لیے تیار نہیں ہو۔ اس لیے میرا اور تمہارا راستہ کبھی ایک نہیں ہو سکتا۔ یہ کفار کو رواداری کا پیغام نہیں ہے، بلکہ جب تک وہ کافر ہیں اُن سے ہمیشہ کے لیے براءت، بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان ہے، اور اس سے مقصود اُن کو اِس امر سے قطعی اور آخری طور پر مایوس کر دینا ہے کہ دین کے معاملہ میں رسول اللہ ﷺ اور ان پر ایمان لانے والے کبھی اُن سے کوئی مصالحت کریں گے۔
لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو اور مجھے اپنے دین پر چلنے دو۔ بلکہ جیسے سُورۃ زُمر میں فرمایا گیا ہے کہ
‘‘ اے نبی، اِن سے کہو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُسی کی بندگی کروں گا، تم اُسے چھوڑ کر جس جس کی بندگی کر نا چاہو کرتے رہو’’
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بس دو ہی دین قرار دیے ہیں، ایک دینِ حق، دوسرے دینِ باطل، چنانچہ فرمایا لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔ اس نے لوگوں کے دو ہی فریق رکھے ہیں، ایک فریق مومن ہے، اور دوسرا فریق بحیثیت مجموعی تمام کفّار ہیں۔ مزید برآں یہ آیت ایک بار پھر ایمان اور کفر کے فرق کی تصدیق کرتی ہے۔
پس سورۃ الکافرون شرک سے براءت کا اعلان اور اسلامی وحدانیت کی توثیق ہے۔ مقصود یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کریں، ہم صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کو تسلیم کریں اور دینی اور دنیوی زندگی کے تمام شعبوں میں ہم بغیر کسی شک وشبہ کے اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری کریں۔
اس سورۃ سے ایک اہم سبق یہ بھی ملتا ہے کہ کسی مؤمن کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کافروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے دینی اصولوں اور اپنے دینی تعلیمات اور شریعت کے احکام کی مخالفت کرے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں قرآن سیکھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے ۔ آمین
:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے