سورۃ الیل‌: اعمال اور جزا
اسلام

سورۃ الیل‌: اعمال اور جزا

سورۃ الیل‌ قرآن کریم کی 92ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ الیل‌ کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو اسلام کے ابتدائی ایام میں مکہ میں نازل ہوئی تھی، سورۃ الیل‌ اکیس آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، الیل‌ کے معنی لفظی طور پر، “رات” کے ہیں۔ اور اس سورۃ کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے رات کی قسم ارشاد فرمائی اس مناسبت سے سورۃ مبارکہ کا نام سورۃ الیل‌ ہے جس سے اس سورۃ کا آغاز فرمایا جارہا ہے۔

اس سورۃ کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں انسان کے اعمال اور آخرت میں ان کی جزاء کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ کی ابتدائی حصہ میں تین قسمیں ارشاد فرمانے کے بعد ﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے

پرہیزگار اور متقین: یہ وہ لوگ ہیں جو راہ خدا میں تقویٰ کے ساتھ انفاق کرنے والے ہیں اور ﷲ کی خوشنودی کیلئے مال بخشتے ہیں۔ اس سورۃ میں انھیں خوشنودئ خدا کے حصول اور رستگاری کا وعدہ دیا گیا ہے۔ 

 شقی القلب بخیل: یہ وہ لوگ ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور قیامت کے اجر و پاداش کے منکر ہیں اور خدا کے بہشت کے وعدے کو جھوٹ سمجھتے ہیں۔ قرآن انھیں ہلاکت کی سرزنش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لوگ دنیا پرستی اور تنگ نظری کی وجہ سے دوسروں کو مال بخشنے اور عطا کرنے سے کتراتے ہیں جبکہ یہ مال قیامت کے روز ان کا فریاد نہیں ہو گا۔

پہلے گروہ کا انجام کار خوش بختی اور راحت و آرام ہے جب کہ دوسرے گروہ کا انجام سختی ، تنگی اور بد بختی ہے ۔

اس سورۃ کے دوسرے حصہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ بندوں کو ہدایت کرنا ﷲ کا کام ہے، سب لوگوں کو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ سے ڈرایا ہے۔

اور آخری حصہ میں، اس آگ میں جلنے والے، اور اس سے نجات پانے والوں کے اوصاف بیان کر تے ہوئے تعارف کرایا ہے ۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الیل‌ کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

قسم ہے رات کی جب چھا جائے. اور دن کی جب روشن ہو. اور اُس ذات کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا. بیشک تمہاری کوشش الگ الگ ہے۔

سورۃ کی ان ابتدائی آیاتِ کریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے رات کے چھا جانے اور دن کی روشن ہونے پر قسم ارشاد فرمائی ہے۔ رات اور دن اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے ہیں ‘ جبکہ اگلی آیت میں ﷲ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کی قسم ارشاد فرمائی ہے کہ جو اس نے پیدا کیے نر اور مادہ۔ ان قسموں سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کائنات کے اندر نظر آنے والے تضادات دراصل نظام کائنات کا حصہ ہیں۔ دنیا کا سارا نظام دن اور رات کے ادلنے بدلنے کی وجہ سے قائم ہے۔ زمین پر حیوانی اور نباتاتی زندگی کا وجود اسی گردش لیل و نہار کا مرہون منت ہے۔ خود نسل انسانی کا تسلسل بھی مرد اور عورت کے جنسی اختلاف و تضاد کی وجہ سے چل رہا ہے۔

” بیشک تمہاری کوشش الگ الگ ہے۔ “- یعنی جس طرح کائنات کی باقی چیزوں میں اختلاف و تضاد پایا جاتا ہے اسی طرح تمہارے مختلف افراد کی کوششوں اور محنتوں کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ یہ وہ بات ہے جس پر رات اور دن اور نر و مادہ کی پیدائش کی قسم کھائی گئی ہے۔ کوششوں سے مراد اعمال ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اِنسانوں کے اعمال مختلف قسم کے ہیں، اچھے بھی اور بُرے بھی، اور اِن اعمال کے نتائج بھی مختلف ہیں، یہ بات کہنے کے لئے رات اور دن کی قسم کھانے کا شاید یہ مقصد ہے کہ جس طرح رات اور دن کے نتائج مختلف ہیں، اِسی طرح نیکی اور بدی کے نتائج بھی مختلف ہیں، اور جس طرح اﷲ تعالیٰ نے نر اور مادہ کی خاصیتیں الگ الگ رکھی ہیں، اِسی طری اعمال کی خاصیتیں بھی جدا جدا ہیں۔

تو جس نے عطا کیا اور تقویٰ اختیار کیا۔ اور بھلائی کو سچ مانا، اس کو ہم آسان راستے کی توفیق دیں گے.

ان آیاتِ کریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے خیر کے راستے پر چلنے والوں کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ اور ان آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ اور تقویٰ کی فضیلت پر روشنی ڈالی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے فراخ دل ہے، اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کی نافرمانی اور ہر حرام کام سے بچتا ہے اور سب سے اچھی بات یعنی اللہ کے ایک ہونے کو اور اس کی نازل کی ہوئی ہر بات کو سچ مان کر اس کا تابع ہوجاتا ہے، تو اس کے اس میلان اور رجحان کے مطابق ہم بھی اس کے لئے نیکی اور جنت کے راستے پر چلنا آسان کردیں گے، یعنی اس کے لئے نیکی کرنا آسان ہوجائے گا اور گناہ کرنا مشکل۔

اور جس نے بخل کیا اور بےپروائی اختیار کی۔ اور بَھلائی کو جھُٹلایا، اسے سختی میں پہنچائیں گے. اور اس کا مال اس کے کچھ کام نہیں آئے گا جب وہ گڑھے میں گرے گا۔

ان آیاتِ کریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے بھلائی اور خیر کے راستے پر چلنے والوں کے کے مقابلے میں یہاں دوسرے راستے یعنی شر کے راست پر چلنے والوں کی خصوصیات  بیان کی ہیں۔ بھلائی اور خیر کے راستے کی تین خصوصیات میں اعطاء کے بعد تقویٰ یعنی پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور ذمہ داری کے احساس کا بیان تھا۔ اس کے مقابلے یہاں بخل پن ‘ لاپرواہی اور بےنیازی (استغناء) کا تذکرہ ہے۔ 

یعنی جس میں شر کے یہ تین جامع اوصاف ہیں کہ وہ بخل کرتا ہے، اخروی انجام اور حلال و حرام کی پروا ہی نہیں کرتا اور سب سے بڑی بات یعنی اللہ کے ایک ہونے اور اس کی نازل کردہ باتوں کو جھٹلاتا ہے، تو ہم بھی اسے اس کی خواہش کے مطابق اس راستے پر چلنے دیتے ہیں جو مشکلات و مصائب کا راستہ ہے اور جہنم کی طرف لے جانے والا ہے، یعنی اس کے لئے نیکی کرنا مشکل اور گناہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

اس سے اگلی آیت میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ شخص جو اللّٰہ کی راہ میں  مال خرچ کرنے سے بخل کر رہا ہے جب مر کر قبر میں  جائے گا یا جہنم کی گہرائی میں پہنچے گا تو وہ مال جو اس نے بخل کر کے جمع کیا تھا اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے میں اسکے کچھ کام نہ آئے گا۔

یقینا ہمارے ذمے ہے ہدایت پہنچا دینا۔ اور ہمارے ہی ہاتھ آخرت اور دنیا ہے.

اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ بہت اہم آیت ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتایا ہے کہ انسان کو سیدھا راستہ دکھانا اور ” ہدایت “ اس تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر اپنی روح بھی پھونکی ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت کی امین ہے اور پھر اس ہدایت و معرفت کی تکمیل کے لیے اس نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے کئی ذرائع سے انسان کو راہ ہدایت دکھانے کا اہتمام فرما دیا ہے۔

 یعنی انسان کا خالق ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالی نے خود اپنی حکمت ، اپنے عدل اور اپنی رحمت کی بنا پر اس بات کا ذمہ لیا ہے کہ اس کو دنیا میں بے خبر نہ چھوڑے بلکہ اسے یہ بتا دے کہ راہ راست کون سی ہے اور غلط راہیں کونسی ، نیکی کیا ہے اور بدی کیا ، حلال کیا ہے اور حرام کیا ، کونسی روش اختیار کر کے وہ فرمانبردار بندہ بنے گا اور کونسا رویہ اختیار کر کے بندہ نافرمان بن جائے گا ۔

راستہ بتانا صرف ہمارے ذمے کیوں ہے؟ اس لئے کہ دنیا اور آخرت دونوں کے بنانے والے اور ان کے مالک ہم ہی ہیں، تو ان کا راستہ بھی ہم ہی جانتے ہیں۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ بے شک تم یہ بات جانتے ہو کہ آخرت اور دنیا دونوں  کے ہم ہی مالک ہیں اور جن بتوں  کی تم پوجا کرتے ہو وہ نہ آخرت کے مالک ہیں نہ دنیا کے مالک ہیں تو تم آخرت اور دنیا کے مالک کی عبادت چھوڑ کر اُن بتوں کی عبادت کیسے کرنے لگ گئے جو آخرت اور دنیا میں سے کسی چیز کے مالک نہیں حالانکہ تمہیں یہ بات معلوم بھی ہے۔

بعض مفسرین نے ایک تفسیر یہ بھی کی ہے کہ بیشک آخرت اور دنیا دونوں کا مالک ﷲ ہی ہے اور ﷲ ان میں سے جو چیز جسے چاہے عطا کرے لہٰذا دنیا اور آخرت کی سعادتیں ﷲ ہی سے ہی طلب کی جائیں 

دیکھو ! میں نے تمہیں خبردار کردیا ہے بھڑکتی ہوئی آگ سے۔ اس میں وہی داخل ہو گا جو بڑا بدبخت ہے. جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرلیا۔

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ جھٹلانے والوں کو انجام سے خبردار کر رہے ہیں، اُس آگ سے ڈرا رہے ہیں جو بھڑک رہی ہے، جو ہمیشہ بھڑکتی رہے گی، کبھی سرد نہیں پڑے گی۔ جس میں بڑا بدبخت ہمیشہ کے لئے لازمی طور پر داخل ہوگا اور وہ انتہائی بد بخت وہ ہے جس نے  رسول اللہ ﷺ کوجھٹلایا اور ان پر ایمان لانے سے منہ پھیرا۔ ظاہر ہے جس انسان کو آخری رسول ﷺ کے آجانے کے بعد بھی حقیقت نظر نہ آئی اس سے بڑا بدبخت اور کون ہوسکتا ہے اور اس سے زیادہ جہنم کے گڑھے میں گرنے کا مستحق کون ہوسکتا ہے؟ 

اور بچالیا جائے گا اس سے جو انتہائی متقی ہے۔ جو اپنا مال دیتا ہے اپنے (نفس) کو پاک کرنے کے لیے۔ 

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچائے جانے کی بشارت دے رہے ہیں جو اپنی ساری زندگی اللہ سے ڈرتے ہوئے گزارتے ہیں اور وہ اپنا مال اللہ کی راہ میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور صرف اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجائے ایسے پرہیزگار لوگوں کو اس جہنم کی آگ سے دور رکھا جائے گا۔ اور سب سے بڑا پرہیزگار وہ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال ریا کاری اور نمائش کے طور پر خرچ نہیں  کرتا بلکہ اس لئے خرچ ہے تاکہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی بار گاہ میں  پاکیزگی ملے ۔

اور اس کے ذمے کسی کا احسان نہیں جس کا وہ بدلہ چکا رہا ہو۔ وہ تو صرف اپنے ربِّ برتر کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے۔ اور وہ عنقریب راضی ہوجائے گا۔

سورۃ کی ان آخری آیات میں متقی  پرہیزگار انسانوں کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں کہ وہ اپنا مال جن لوگوں پر صرف کرتے ہیں ان کا کوئی احسان پہلے سے اس پر نہ تھا کہ وہ اس کا بدلہ چکانے کے لیے، یا آئندہ ان سے مزید فائدہ اٹھانے کے لیے ان پر خرچ کریں، بلکہ وہ اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے لیے ایسے لوگوں کی مدد کرتے ہے جن کا نہ پہلے اس پر کوئی احسان تھا ، نہ آئندہ ان سے وہ کسی احسان کی توقع رکھتے ہیں۔ بلکہ اخلاص سے اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ کے راستے میں جو کچھ خرچ کرتتے ہیں اُس میں دکھاوا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہوتی ہے،

یعنی جو شخص ان صفات کا حامل ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کی نعمتیں اور عزت و شرف عطا فرمائے گا۔ جس سے وہ راضی ہوجائے گا، اکثر مفسرین نے کہا ہے بلکہ بعض نے اجماع تک نقل کیا ہے کہ یہ آیات حضرت ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ تاہم معنی و مفہوم کے اعتبار سے عام ہیں جو بھی ان صفات عالیہ سے متصف ہوگا، وہ بارگاہ الہی میں ان کا مصداق قرار پائے گا۔

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل کرنے سے بچنے، اپنی آخرت کی پرواہ اور فکر کرنے اور دینِ اسلام کو مانتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *