سورة القارعة: قیامت اور آخرت
اسلام

سورة القارعة: قیامت اور آخرت

سورة القارعة قرآن کریم کی 101ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ القارعة کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو کہ گیارہ آیات پر مشتمل ہے، پہلی آیت میں مذکور پہلے لفظ اَلْقَارِعَۃِ کو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ القارعة کے معنی کھڑ کھڑا ڈالنے یا کسی کو شدت سے مارنے کے ہیں۔ القارعة قیامت کے ناموں میں سے ایک ہے۔ سورۃ کی ابتدائی تین آیات میں لفظ القارعة آیا ہے۔ یہ صرف نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے، کیونکہ اس میں سارا ذکر قیامت ہی کا ہے۔

 سورۃ القارعة بڑی وضاحت سے آغاز سے اختتام تک واقعۂ محشر کو بیان کرتی ہے اس دن کے شدائد و احوال اور انسان کے انتہائی انجام کو بیان کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ جس کی نیکیوں کا ترازو بھاری ہو گا وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں کا ترازو ہلکا پڑے گا تو اس کا ٹھکانا جہنم کی شعلے مارتی آگ میں ہوگا جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ القارعة کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

وہ کھڑ کھڑا ڈالنے والی  کیا ہے وہ کھڑ کھڑا ڈالنے والی

اور تو کیا سمجھا کیا ہے وہ کھڑ کھڑا ڈالنے والی

سورۃ کی ان ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی بڑائی اور ہولناکی کے بیان کے لیے سوال کیا ہے کہ وہ کیا چیز ہے؟  ”القارعۃ“ قیامت کا ایک نام ہی ہے اور اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کو نہایت سختی کے ساتھ جنجھوڑ دے گی اس کی دہشت، ہولناکی اور سختی سے (تمام انسانوں کے) دل دہل جائیں گے اور اللہ کے دشمنوں کو شدید عذاب میں مبتلا کر دے گی۔ آسمان پھٹ جائے گا آفتاب اور ستارے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے، زمین میں بھونچال آجائے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ 

پہلی اور دوسری آیت میں ” استفہام “ سے قیامت کے دن کی ہولناکی اور سختی کو بیان کرنا مقصد ہے۔ یہ اپنی ہولناکیوں سے دلوں کو بیدار اور اللہ کے دشمنوں کو عذاب سے خبردار کر دے گی، جیسے دروازہ کھٹکھٹانے والا کرتا ہے۔

پھر اس سے آگے آنے والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا: قیامت کا دن جو اپنی دہشتوں کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کی نہایت سختی کے ساتھ جھنجھوڑ دینے والا / کھڑ کھڑا ڈالنے والا ہوگا، آپ کو کیا معلوم کہ وہ کیسا دن ہوگا ؟ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیبﷺ ! آپ قیامت کی ہولناکی، شدت اور دہشت کو ہماری طرف سے آنے والی وحی کے ذریعے ہی جان سکتے ہیں

جس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی مانند ہوں گے۔

اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی مانند ہوجائیں گے۔

ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں سامعین کو قیامت کے ہولناک واقعہ کے پیش آنے کی خبر سننے کے لیے تیار کرنے کے بعد دو فقروں میں ان کے سامنے قیامت کا نقشہ پیش کر دیا گیا ہے کہ اس روز لوگ گھبراہٹ کے عالم میں اس طرح ہر طرف بھاگے بھاگے پھریں گے جیسے روشنی پر آنے والے پروانے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں اور پہاڑوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے، ان کی بندش ختم ہو جائے گی اور وہ دھنکے ہوئے اون کی طرح ہو کر رہ جائیں گے۔

اس دن لوگ کیڑوں اور ٹڈیوں کی مانند پریشان اور مضطرب ہوں گے۔ ” فراش“ ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو رات کے وقت شمع اور چراغ کی روشنی کے گرد اڑتے اور گرتے رہتے ہیں، اسی طرح قیامت کے دن لوگ پریشان اور مضطرب ہوں گے، شدت از دحام اور پریشانی کے سبب ایک دوسرے پر گریں گے، جیسا کہ وہ اپنی عقل کھو چکے ہوں، اور ان پر جنونی کیفیت طاری ہو گی۔

اور پہاڑوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے، ان کی بندش ختم ہو جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح اڑنے لگیں گے ۔ رنگ برنگ کے اون سے پہاڑوں کو تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ ان کے رنگ مختلف ہوتے ہیں ۔

ان آیات میں الله تعالیٰ نے قیامت کے دن کے پہلے مرحلے کی منظر کشی بیان کی ہے جب لوگ حساب وکتاب سے بے حد خوفزدہ ہوںگے۔

تو جن لوگوں کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے۔ ‎

تو وہ ہوگا عیش و عشرت کی زندگی میں۔‎

یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں کے اچھے اور بُرے اعمال کو ترازو پر تولا جائے گا۔ پچھلی آیات میں قیامت کا حال ذکر کرنے کے بعد یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے جب دوبارہ زندہ ہوکر لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ قبروں سے نکل کر میدان محشر میں جمع ہوں گے اور ان کے نامہ اعمال رب العالمین کے سامنے پیش ہوں گے حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں گے تو اس کی نیکیوں کا پلڑا جھک جائے گا تو وہ جہنم سے نجات پا جائے گا اور اسے جنت میں دائمی اور ہمیشگی خوشگوار زندگی مل جائے گی۔ جہاں ان لوگوں کو وہ عیش نصیب ہوگا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔

اور جس (کی نیکیوں) کے پلڑے ہلکے ہوئے۔

تو اس کا  ٹھکانہ ایک گڑھا ہوگا۔

آخرت میں  جب لوگوں  کا حساب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہو گی تو اُس میں  فیصلہ اِس بنیاد پر ہو گا کہ کس شخص کے نیک اعمال بُرے اعمال سے زیادہ وزنی ہیں اور کس کے نیک اعمال کا وزن اس کے بُرے اعمال کی بہ نسبت ہلکا ہے۔ یعنی جس کی نیکیاں کم ہوجائیں گی اور گناہ زیادہ ہوجائیں گے یا اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی جیسے کافر و مشرک، اس کا ٹھکانا جہنم کی کھائی ہوگی ۔

ان آیات میں ﷲ تعالیٰ نے دوسری قسم کے لوگوں کو یعنی جس کی برائیاں نیکیوں پر غالب ہوں گی، اور برائیوں کا پلڑا بھاری اور نیکیوں کا ہلکا ہوگا، جہنّم کی وعید سناتے ہوے کہا کہ ان کا ٹھکانا ہاویہ ہے

هَاوِيَةٌ جہنم کا نام ہے، اس کو ہاویہ اس لئے کہتے ہیں کہ جہنمی اس کی گہرائی میں گرے گا۔ اور اس کو ام (ماں) سے اس لئے تعبیر کیا کہ جس طرح انسان کے لئے ماں، جائے پناہ ہوتی ہے اسی طرح جہنمیوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ ام کے معنی دماغ کے ہیں۔ جہنمی، جہنم میں سر کے بل ڈالے جائیں گے۔

اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ کیا ہے ؟

!آگ ہے دہکتی ہوئی 

ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ جہنم کی ہولناکیوں اور اس کے عذاب کی سختی کا احساس دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہ آپ کو کیا معلوم کہ وہ ” ہاویۃ “ کیا ہے ؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ وہ تو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہے، جس کی گرمی دنیا کی آگ کی گرمی سے ستر گنا زیادہ ہو گی۔ 

یہ استفہام اس کی ہولناکی اور شدت عذاب کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ وہ انسان کے وہم وتصور سے بالا ہے، انسانی علوم اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ یعنی ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ انسان کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ محض ایک گہری کھائی ہی نہ ہوگی بلکہ بھڑکتی ہوئی آگ سے بھری ہوئی ہوگی۔

سورة القارعة میں آغاز سے لے کر اختتام تک روز قیامت کے واقعات بیان ہوۓ ہیں۔ اس روز کے مصائب و احوال واضح کرتے ہوۓ ذکر ہوتا ہے کہ جس کے نیک اعمال زیادہ اور برے اعمال کم ہوں گے وہ اس دن خوش بخت اور کامیاب ہو گا اور جس کے اعمال برے ہوں گے اسے جہنم کی جھلسا دینے والی آگ میں دھکیل دیا جاۓ گا۔ اس سورۃ میں روز قیامت انسانوں کے وحشت زدہ ہونے کا بیان وارد ہوا ہے۔ اور يہ بیان کیا گیا ہے کہ روز قیامت انسانوں کے اعمال کو مخصوص میزان پر تولا جاۓ گا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو جہنم سے محفوظ فرمائے، آمین

:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

مزید دلچسپ مضامین