سورۃ الشمس: نیکی اور بدی کا فرق
اسلام

سورۃ الشمس: نیکی اور بدی کا فرق

سورۃ الشمس قرآن کریم کی 91ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ الشمس کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو اسلام کے ابتدائی ایام میں مکہ میں نازل ہوئی تھی، مگر اس کا نزول اس زمانے میں ہوا جب مکہ میں رسول اللہ  ﷺ کی مخالفت خوب زور پکڑ چکی تھی۔ سورۃ الشمس پندرہ آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، الشمس کے معنی لفظی طور پر، “سُورج” کے ہیں۔ اور اس سورۃ کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے سُورج کی قسم ارشاد فرمائی اس مناسبت سے سورۃ مبارکہ کا نام سورۃ الشمس ہے جس سے اس سورۃ کا آغاز فرمایا جارہا ہے۔

سورۃ الشمس کا مرکزی مضمون نیکی اور بدی کا فرق سمجھانا اور ان لوگوں کو برے انجام سے ڈرانا ہے جو اس فرق کو سمجھنے سے انکار اور بدی کی راہ چلنے پر اصرار کرتے ہیں۔

 اس سورۂ مبارکہ کی ابتدائی حصہ میں گیارہ قسمیں ارشاد فرمانے کے بعد ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک جس نے اپنے نفس کو برائیوں  سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا اور بیشک جس نے اپنے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔  سورۃ کے دوسرے حصّہ میں حضرت صالح، ان کی اونٹنی اور قوم ثمود کے ہاتھوں اس اونٹنی کے مارے جانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الشمس کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔ اور چاند کی جب اس کے پیچھے نکلے۔ اور قسم ہے دن کی جب وہ اس (سورج) کو روشن کردیتا ہے۔ اور قسم ہے رات کی جب وہ اس (سورج) کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اور قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اسے بنایا۔ اور قسم ہے زمین کی اور اس کی جس نے اسے بچھا دیا۔ اور قسم ہے نفس انسانی کی اور اس کی جس نے اس کو سنوارا۔ پس اس کے اندر نیکی اور بدی کا علم الہام کردیا۔

سورۃ مبارکہ کی ان ابتدائی آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے بہت سی قسمیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی یعنی دھوپ کی  اور قسم ہے چاند کی جبکہ وہ اس کے پیچھے آتا ہے یعنی جب سورج کے غروب ہونے کے بعد آئے،  اور قسم ہے دن کی جب وہ اس (سورج) کو روشن کر دیتا ہے، یعنی جب دن کے وقت سورج پوری روشنی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور تمام اشیاء کو نمایاں کر دیتا ہے اور رات کی تاریکی کو روشن کر دیتا ہے۔ اور قسم ہے رات کی جب وہ اس (سورج) کو ڈھانپ لیتی ہے۔ ان دونوں آیات کا مفہوم یوں ہوگا کہ دن سورج کو نمایاں کردیتا ہے جبکہ رات اسے ڈھانپ لیتی ہے۔ اور قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اس کو پیدا کیا، اور قسم ہے زمین کی اور اس ذات کی جس نے اس کو بچھایا یا جس نے اسے ہموار کیا۔ قسم ہے انسانی جان کی اور اسکے درست ومتناسب کرنے والے کی یعنی اس ذات کی جس نے اس کے تمام اعضاء کو درست بنایا اور پھر اس کو خیر وشر کی پہچان کروا دی، مطلب یہ ہے کہ ان کی عقل اور فطرت میں خیر اور شر، نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کر دیا، تاکہ وہ نیکی کو اپنائیں اور بدی سے اجتناب کریں۔

یقینا کامیاب ہو گیا جس نے اس کو پاک کر لیا۔ اور ناکام ہو گیا جس نے اسے مٹی میں دفن کر دیا۔

پہلی آیت سے لے کر آٹھویں آیت تک تمام قسموں کا جواب قسم یہ ہے کہ ” جس شخص نے اپنے نفس کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے مٹی میں دبا دیا وہ ناکام ہوا۔ ان دو آیاتِ کریمہ میں انتہائی اختصار کے ساتھ انسان کی حقیقی کامیابی اور ناکامی کا معیار بیان کر دیا گیا ہے۔ جس نے اپنے نفس کو کفر و شرک سے، فاسد عقائد سے اور اخلاق رذیلہ سے پاک کرلیا۔ وہ کامیاب ہوگیا اور جس شخص نے اپنے ضمیر کی آواز کو جو اسے خیر و شر پر متنبہ کرتی رہتی ہے، خاک میں دبا دیا وہ نامراد ہو گیا۔ 

یعنی جس طرح سورج اور چاند ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دن اور رات مختلف اور متضاد ہیں۔ زمین اور آسمان ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ فجور اور تقویٰ یا خیر اور شر ایک دوسرے کی ضد ہے۔ اسی طرح خیر و شر کی بنیاد پر اٹھنے والے اعمال کے نتائج بھی یقیناً ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہونے چاہییں۔ وہ ایک جیسے کبھی نہیں ہوسکتے۔ تقویٰ کی بنیاد پر کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اخروی فلاح و کامیابی ہے جبکہ فجور کی بنیاد پر کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اخروی ناکامی اور نامرادی ہے۔

قومِ ثمود نے بھی جھٹلایا تھا اپنی سرکشی کے باعث۔ جب اٹھ کھڑا ہوا ان کا سب سے شقی انسان۔ تو اللہ کے رسول نے ان سے کہا کہ (خبردار !) یہ اللہ کی اونٹنی ہے اور یہ اس کے پانی پینے کا دن ہے۔ تو انہوں نے اس کو جھٹلا دیا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ تو الٹ دیا ان پر عذاب ان کے رب نے ان کے گناہ کی پاداش میں اور سب کو برابر کردیا۔ اور وہ اس کے انجام سے نہیں ڈرتا۔

ان آیات میں ﷲ تعالیٰ آل ثمود کی تباہی کے اسباب بیان فرما رہے ہیں۔ قومِ ثمود نے بھی حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کو اپنی سرکشی کے باعث جھٹلا دیا تھا جو ان کی ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔

 حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرایا اور بار بار سمجھایا کہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور رسول ہونے کی حیثیت سے میری اطاعت کرو قوم نے حضرت صالح علیہ السلام سے معجزہ طلب کیا کہ ہمارے سامنے اس پہاڑ سے ایک اونٹنی نمودار ہو اور اس کے پیچھے اس کا دودھ پیتا بچہ بھی ہونا چاہیے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی تائید میں اور قوم کے مطالبہ کے عین مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ایک پہاڑ سے اونٹنی اور اس کا بچہ نمودار کیا جب اونٹنی اپنے بچہ کے ساتھ قوم کے سامنے آئی تو حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو سمجھایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اونٹنی ہے ایک دن یہ پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن تم اور تمہارے جانور پئیں گے، خبردار! اسے تکلیف دینے کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا اگر تم نے اس کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تمھیں دبوچ لے گا۔ اس انتباہ کے باوجود ایک بدبخت شخص اپنی قوم کے لوگوں کے کہنے پر اس اونٹنی کو ہلاک کرنے پر کمربستہ ہوگیا اور اس نے اونٹنی کی کوچیں کاٹ ڈالیں جس کے نتیجہ میں ان کو عذاب نے پکڑ لیا اور اس عذاب میں زمین کو ان پر برابر کر دیا یعنی سب کو تہ خاک کر دیا۔

سورۃ کی آخری آیت میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ اس کے انجام سے نہیں ڈرتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنے اس فعل کے کسی برے نتیجے کا کوئی خوف نہیں ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا ؟ وہ پوری کائنات کا مالک اور خالق ہے ‘ وہ جو چاہے کرے۔ اس نے اس پوری قوم کو ختم کردیا اور ان کی جگہ دوسری قوم کو لے آیا۔ 

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں نیکی کی راہ پر چلنے اور بدی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *