سورۃ الشرح: مشکل کے ساتھ آسانی کی بشارت
اسلام

سورۃ الشرح: مشکل کے ساتھ آسانی کی بشارت

سورۃ الشرح قرآن کریم کی 94ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ الشرح کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو اسلام کے ابتدائی ایام میں مکہ میں نازل ہوئی تھی، سورۃ الشرح آٹھ آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، الشرح کے معنی لفظی طور پر، “دل کا کھلنا” کے ہیں۔ سورۃ الشرح، جس کا مطلب ہے “سکون” یا “آرام”، سورۃ کا نام ابتدائی آیت سے لیا گیا ہے اسے سورۃ الانشرح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

حضور نبی کریم ﷺ نے دعوت توحید کا آغاز کیا تو مکہ کی ساری آپؐ کے خلاف ہو گئی۔ یہ ایک بڑی مشکل کا دور تھا۔ لوگوں کے اطوار بدل گئے۔ ان سراسر ناموافق حالات میں قلب نبوت کے لیے راحت و سکون کا اگر کوئی پیغام ہوسکتا تھا تو وہ ﷲ تعالیٰ کا ہی ارشاد ہوسکتا تھا۔ اسی بنا پر سورۂ الشرح ﷲ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ﷺ اور آپ کی امت کے لیے ایک حوصلہ افزائی کے کلمہ کے طور پر تسلی دینے کے لیے نازل کی گئی۔

اس سورۂ مبارکہ میں ﷲ تعالیٰ رسول اللہﷺ کو تسلی دینے کی خاطر اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں شرح صدر، آپؐ کا بوجھ ہلکا کرنا اور آپؐ کا نام بلند کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ سورۃ میں ﷲ تعالیٰ مشکلات کے ساتھ ساتھ آسانیوں کی نوید بھی سناتے ہیں مزید اس سورۃ میں اللہ کی نعمتوں پر شکر اور اس کی عبادت کی ترغیب دلائی جارہی ہے

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الشرح کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

(اے محمدﷺ) کیا ہم نے تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟

سورۃ کی اس ابتدائی آیتِ کریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے سوال سے کلام کا آغاز کیا، اس آیت میں سوالیہ انداز بیان اختیار کیا گیا ہے کہ جس سے اس کے پس منظر پر روشنی پڑتی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابتدائی دور میں آپ کو پیش آنے والی شدید مشکلات پر سخت پریشان تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالی نے آپ کو مخاطب کر کے تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے نبی ، کیا ہم نے یہ عنایات تم پر نہیں کی ہیں؟ پھر ان ابتدائی مشکلات پر تم پریشان کیوں ہوتے ہو؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ احسان یاد دلایا ہے کہ کیا تمہیں ہم نے ان مصائب کو برداشت کرنے کے لیے چٹان جیسا حوصلہ نہیں عطا فرما دیا۔ کیا ہم نے تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟ ایک آدمی کا دل دین کی فہم کے لیے کھول دیا جانا یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے

شرح صدر کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی سینہ کھولنے کے ایک معنی یہ ہے کہ کسی بات، نظریہ، عقیدہ یا معاملہ کی انسان کو پوری طرح سمجھ آجائے۔ اس میں کوئی شک و شبہ یا ابہام باقی نہ رہے اور انسان کو جو کچھ سمجھ میں آئے اس پر اسے یقین اور اطمینان حاصل ہو جائے جیسے سورۃ الانعام میں فرمایا کہ

جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔

 اور اس لفظ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جس کام کو انسان ایک بہت بڑا مشکل کام سمجھ رہا ہو اور اس کام کو سرانجام دینا اسے گراں محسوس ہو رہا ہو اس کام کے کر گزرنے اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے اس کی طبیعت آمادہ ہوجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰؑ کو نبوت دے کر حکم دیا کہ اب فرعون کے ہاں جاکر اسے میرا پیغام دو ۔ تو اس وقت آپ نے دعا فرمائی۔ 

اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے میرا یہ (مشکل) کام آسان بنا دے –

اور تم پر سے بوجھ بھی اتار دیا، جس نے تمہاری پیٹھ جھکا دی تھی۔ 

ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ پر اپنے ایک اور انعام کا تذکرہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے اس بوجھ کو دور کر دیا، جو آپ کے لیے انتہائی ثقیل اور وزنی تھا۔ اس بوجھ سے مراد رنج و غم اور فکر و پریشانی کا وہ بوجھ ہے جو نبی اکرم ﷺ کو کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے رہتا تھا۔ جو اپنی قوم کی جاہلیت کو دیکھ دیکھ کر آپ کی حساس طبیعت پر پڑ رہا تھا آپ کے سامنے بت پوجے جا رہے تھے ۔ یہی فکر آپ کی کمر توڑے ڈال رہی تھی جس کا بارِ گراں اللہ تعالی نے ہدایت کا راستہ دکھا کر آپ کے اوپر سے اتار دیا اور نبوت کے منصب پر سرفراز ہوتے ہی آپ کو معلوم ہو گیا کہ توحید اور آخرت اور رسالت پر ایمان ہی سے انسانی زندگی کے ہر بگاڑ دُور کیا جا سکتا ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں اصلاح کا راستہ صاف کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالی کی اس رہنمائی نے آپ کے ذہن کا سارا بوجھ ہلکا کر دیا اور آپ پوری طرح مطمئن ہو گئے کہ اس ذریعہ سے آپ نہ صرف عرب بلکہ پوری نوع انسانی کو ان خرابیوں سے نکال سکتے ہیں جن میں اس وقت ساری دنیا مبتلا تھی ۔

 اس بوجھ کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس بوجھ سے مراد رسالت کی ذمہ داریاں بھی ہوسکتا ہے یہ بوجھ بھی ابتداء ً نہایت گرانبار تھا جبکہ آغاز دعوت پر مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو پہاڑ جیسا حوصلہ عطا کرکے اس کمر توڑ بوجھ کو آپؐ کے ذہن سے اتار دیا اور آپؐ ذمہ داریاں نباہنے کے لیے دل و جان سے مستعد ہوگئے، جس کے نتیجے میں آپ نے مشکل سے مشکل کام انتہائی اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دیئے۔ 

اور ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی بے پناہ محبّت و الفت کا تذکرہ کیا ہے اور اس بلند ترین مقام و مرتبہ کو بیان کیا ہے، جس سے نبی کریم ﷺ سرفراز کیے گئے ہیں۔ 

حضورﷺ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا ہے حتّٰی کہ کسی کا اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کی وحدانیّت کا اقرار کرنا اوراس کی عبادت کرنا اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ تاجدارِ رسالت ﷺ پر ایمان نہ لے آئے اور ان کی اطاعت نہ کرنے لگے۔ آپ کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت قرار دیا اور اپنی اطاعت کے ساتھ آپ کی اطاعت کا بھی حکم دیا۔

حضورﷺ کے ذکر کی بلندی یہ بھی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ ﷺ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اذان میں، اقامت میں ،نماز میں، تشہد میں، خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا، ہر خطیب اور ہر تشہد پڑھنے والا ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کے ساتھ ’’ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘ پکارتا ہے۔

پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے.

 سورۃ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے آپ کو بتایا ہے کہ ہم نے آپ کو تین بہت بڑی نعمتیں عطا کی ہیں جن کی موجودگی میں کوئی وجہ نہیں کہ آپ دل شکستہ ہوں

اس کے بعد اس آیت میں رب کائنات اپنے بندے اور رسول ﷺ کو یہ اطمینان دلاتا ہے کہ مشکلات کا یہ دور، جس سے آپ کو سابقہ پیش آ رہا ہے، کوئی بہت لمبا دور نہیں ہے بلکہ اس تنگی کے ساتھ ہی ساتھ فراخی کا دور بھی لگا چلا آ رہا ہے

اس آیت سے معلوم ہو اکہ کسی مشکل، مصیبت یا دشواری کے آجانے کی وجہ سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ سے مشکل اور مصیبت دور ہو جانے اور دشواری آسان ہو جانے کی امید رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہئے، اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا تو بہت جلد آسانی مل جائے گی۔  یہ آیت امید اور حوصلہ افزائی کا پیغام دیتی ہے۔

بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اضافی تاکید کے لیے آیت ’’بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘ کو دہراتے ہیں۔ بہ تکرار آپ ﷺ کو یقین دہانی کرائی گئی ہے، یہ بشارت دی گئی ہے کہ اگر اس وقت آپ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں تو عنقریب مصائب کے یہ بادل چھٹ جائیں گے اور اتنی ہی آپ کو سہولتیں اور آسانیاں میسر آئیں گی۔ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ تنگی کے بعد آسانی ہے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت جلد یہ صورت حال بدل جانے والی ہے۔ اس طرح آپؐ کو اور مسلمانوں کو تسلی بھی دے دی گئی کہ وہ یہ مشکل وقت حوصلہ اور صبر کے ساتھ برداشت کریں کہ جن سخت حالات سے آپ اس وقت گزر رہے ہیں یہ زیادہ دیر رہنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کے بعد قریب ہی میں اچھے حالات آنے والے ہیں ۔

تو جب فارغ ہوا کرو تو (عبادت میں) محنت کیا کرو

اس آیت میں اللہ کی نعمتوں پر شکر اور اس کی عبادت کی ترغیب دلائی جارہی ہے۔ اگرچہ اس میں حضور ﷺ کو خطاب ہے تاہم تمام مکلفین مراد ہیں۔ یعنی آپ کے دنیا کے کام ہوں یا تبلیغ دین یا جہاد فی سبیل اللہ، اگرچہ یہ سب عبادات اور نیکیاں ہیں مگر ان میں پھر بھی مخلوق سے کچھ نہ کچھ رابطہ رہتا ہے، جب بھی ان کاموں سے کچھ فراغت ملے، تو ہر چیز سے منقطع ہو کر اپنے رب سے تعلق جوڑ کر ذکر الٰہی، تلاوت قرآن، قیام اور رکوع و سجود کی محنت کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ تمام تر توجہ اس کی طرف مبذول کریں اور صرف اسی کی عبادت کریں۔ 

اور اپنے رب کی طرف راغب ہوجایا کرو

سورۃ کی اس آخری آیتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ کے اس حکم کا منشا یہ ہے کہ جب کوئی اور مشغولیت نہ رہے تو اپنا فارغ وقت عبادت کی ریاضت و مشقت میں صرف کرو اور ہر طرف سے توجہ ہٹا کر صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر رہے ہیں کہ، آپ خاص طور پر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف رغبت رکھیں ،اسی کے فضل کے طالب رہیں  اور اسی پر توکُّل کریں۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ پر توکُّل کرے اور اللّٰہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگے۔ 

حضرت عبد اللّٰہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے  ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو کہ اللّٰہ تعالیٰ مانگنے کو پسند فرماتا ہے“۔

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نعمتوں پر شکر ادا کرنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین