سورۃ التکاثر قرآن کریم کی 102ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔ سورۃ التکاثر کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو کہ آٹھ آیات پر مشتمل ہے، اس سورۃ کا نام التکاثر پہلی آیت میں مذکور ہے۔ التکاثر عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی بہتات کی طلب کے ہیں۔ التکاثر کے معنی مال جمع کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے بھی ہیں اور مال و دولت کی کثرت پر فخر کرنے کے بھی۔
سورۃ التکاثر میں بڑی وضاحت سے ان لوگوں کی مذمت ہوئی ہے جو مال، اولاد اور طرفداروں کے لحاظ سے دوسروں پر فخر کرتے ہیں۔ معنی ایسی چیزوں کو اپنے لیے باعثِ عزت و افتخار شمار کرتے ہیں جو فانی ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم اپنے انجام سے آنکھیں بند کیے ہوئے دولت کے انبار سمیٹنے میں از حد مصروف ہو، تمہیں اتنی فرصت بھی نہیں کہ اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کرسکو عنقریب جو نعمتیں تم لوگوں کو دی گئی ہیں اس بارے میں سوال ہوگا۔
یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ التکاثر کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔
!تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے
سورۃ کی اس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہر وہ چیز، جس کی کثرت انسان کو محبوب ہو اس کثرت کے حصول کی کوشش و خواہش اسے اللہ کے احکام اور آخرت سے غافل کر دیتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسان کی اسی کمزوری کو بیان کر رہا ہے، جس میں انسانوں کی اکثریت ہر دور میں مبتلا رہی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ اس کو جتنا بھی مال مل جائے وہ اس پر قناعت نہیں کرے گا۔ دولت انسان کے پاس چاہے جتنی بھی ہو اس کی طبیعت اس سے بھرتی نہیں اور وہ بدستور مزید حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے اور اپنے مال اور اولاد پر فخر کرنے نے انسان کو اللّٰہ تعالیٰ کی عبادات سے غافل کردیا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کثرتِ مال کی حرص اور اس پر اور اولاد پرفخر کا اظہار کرنا مذموم ہے اور اس میں مبتلا ہو کر آدمی اُخروی سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔
یہاں تک کہ تم قبروں کو پہنچ جاتے ہو۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ انسان کی فطرت بیان کر رہے ہیں کہ انسان اپنی ساری عمر حصول کثرت کی تگ و دو میں کھپا دیتا ہے اور مرتے دم تک یہ فکر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ حصول کثرت کے لئے محنت کرتے کرتے انسان کو موت آ جاتی ہے اور وہ قبر میں جا پہنچتا ہے لیکن انسان کی حرص و ہوس کے پیمانے کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔
ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ انسان کو متنبہ کر رہے ہیں کہ تمہاری کثرت کے حصول کی خواہشات اور انہیں باتوں پر فخرکرنا سراسر لغو اور باطل ہے اور مرنے کے ساتھ ہی تمہیں خوب معلوم ہوجائے گا کہ تمہاری یہ زندگی بھر کی کوششیں فضول اور بےکار تھیں۔ اور ان میں کوئی کوشش اور کوئی چیز ایسی نہ تھی جو مرنے کے بعد تمہارے کام آسکے۔ عنقریب اِس کا برا انجام تمہیں معلوم ہو جائے گا اور تم جان لو گے کہ یہ کتنی بڑی غلطی تھی جس میں تم عمر بھر مبتلا رہے۔ عنقریب سے مراد آخرت بھی ہو سکتی ہے اور اس سے مراد موت بھی ہو سکتی ہے
پھر (سن لو کہ) ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا
اس آیت میں دوبارہ تاکیداً فرمایا گیا کہ تمہارے ایسے خیالات قطعاً درست نہیں ہیں۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے دلائل میں کچھ تھوڑا بہت بھی غور و فکر کرلیتے تو تمہیں یقیناً یہ بات معلوم ہو جاتی کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے سب سامان ہیچ ہیں اور اس طرح غفلت میں نہ پڑے رہتے۔ تمہیں یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ کثرت کے حصول کے چکر میں پڑ کر زندگی گزارنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں یقیناً جہنم کو دیکھنا ہوگا اور اس کے کچھ آثار تمہیں مرنے کے فوراً بعد عالم برزخ میں ہی نظرآنے لگیں گے۔ یعنی ابھی تم لوگ ” تَـکَاثُر “ کے نشے میں مست ہونے کی وجہ سے موت کا تصور بھی ذہن میں لانے کے لیے تیار نہیں ہو مگر وہ وقت دور نہیں جب موت خود آکر تم سے ملاقات کرے گی
کوئی بات نہیں ! کاش کہ تم علم یقین کے ساتھ جان جاتے
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں کہ اے لوگو ! اگر تم اس غفلت کا انجام یقینی طور پر جان لیتے تو تم یقیناً اس تکاثر وتفاخر میں مبتلا نہ ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اگر تم موت کی حقیقت پر سوچتے اور اپنے انجام پر غورو فکر کرتے کہ ایک دن ہمیں مرنا ہے اور دنیا کے اسباب ومتاع کو چھوڑ کر جانا ہے، تو تم ہرگز دنیا میں مشغول ہو کر آخرت سے غفلت نہ برتتے۔ یعنی موت یا قیامت کا علم دراصل یقینی علم ہے‘ کاش کہ تمہیں اس کا شعور ہوتا۔
یقین کے تین درجے ہیں : علم الیقین ‘ عین الیقین اور حق الیقین۔
علم الیقین وہ یقین ہے جو انسان کو علم ‘ معلومات یا استدلال کی بنیاد پر حاصل ہو۔ مثلاً آپ نے دور سے دھواں اٹھتا دیکھا تو آپ نے کہا کہ وہاں آگ لگی ہوئی ہے‘ حالانکہ آگ آپ نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ پھر جب آپ نے وہاں جا کر خود اپنی آنکھوں سے آگ کو دیکھ لیا تو آپ کو عین الیقین حاصل ہو گیا۔ لیکن حق الیقین کا درجہ اس سے بھی آگے ہے ۔ یقین کا یہ درجہ باقاعدہ تجربے سے حاصل ہوتا ہے اس لیے کہ آنکھ سے دیکھنے میں بھی دھوکے کا امکان ہے۔
تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے
اس آیت میں ﷲ تعالیٰ نے جہنّم کی وعید سناتے ہوے کہا کہ دوزخ تو تم مرنے کے فوراً بعد دیکھ لو گے۔ پھر جب قیامت کے دن تم میدان محشر میں اکٹھے کیے جاؤ گے تو پھر اپنے انجام کو اپنی آنکھوں سے یوں دیکھ لو گے کہ تمہیں اس کے یقینی ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہ جائے گا۔
پھر تم اس کو عین الیقین کے ساتھ دیکھو گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پچھلی آیت میں بیان کیے جانے والے انجام کی دوبارہ تائید کی ہے یعنی تم جہنم ضرور دیکھو گے یعنی اپنے اعمال کی سزا بھگتو گے۔
پچھلی آیت میں دوزخ کو دیکھنا دور سے ہوگا معنی علم الیقین سے دیکھنا ہو گا، لیکن یہ دیکھنا قریب سے ہوگا، اسی لئے اسے عَيْنُ الْيَقِينِ (جس کا یقین مشاہدۂ عینی سے حاصل ہو) کہا گیا۔ اور یہ عین الیقین کا درجہ یقین کا اعلیٰ درجہ ہے۔
پھر اس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں۔
اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان سے ان تمام نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائےگا، جو اللہ نے دنیا میں عطا کی ہوں گی۔ جیسے آنکھ، کان، دل، دماغ، امن وصحت، مال ودولت اور اولاد وغیرہ۔ یہ آیتِ کریمہ ہمیں واضح طور پر بتا رہی ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان سے جواب طلبی ہوگی کہ اس نے ان نعمتوں کا استعمال گناہوں اور نافرمانیوں میں کیا یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری میں کیا۔ اسی طرح یہ بھی سوال ہوگا کہ اس نے اعمال کرتے وقت کیا نیّت کی اور اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے بارے میں اس نے کیا گمان کیا۔ جنہوں نے ان نعمتوں کا استعمال اللہ کی ہدایت کے مطابق کیا ہوگا، وہ سوال کے باوجود عذاب سے محفوظ رہیں گے ، اور جنہوں نے کفران نعمت کا ارتکاب کیا ہوگا، وہ دھر لیے جائیں گے۔
سورۃ التکاثر میں لوگوں کو دنیا پرستی کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔ دنیوی مال اور چیزوں کی ہوس اور ان کے حصول میں مقابلہ آرائی نے انسان کو اپنی زندگی کے اصل مقصد سے غافل کر دیا ہے۔ انسان کی زندگی کا اصل مقصد یہ ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرے اور جنّت کے حصول کے لئے کوشش کرے؛ لیکن افسوس ہے کہ دنیوی مال اور دولت کے اندر انسان منہمک ہو گئے اور ایک دوسرے کے ساتھ اس کے حصول میں مقابلہ بازی کرنے میں الجھ گئے۔ اِس کے برے انجام پر متنبہ کرنے کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نعمتیں جن کو تم یہاں بے فکری کے ساتھ سمیٹ رہے ہو، یہ محض نعمتیں ہی نہیں ہیں بلکہ تمہاری آزمائش کا سامان بھی ہیں۔ ان میں سے ہر نعمت کے بارے میں تم کو آخرت میں جواب دہی کرنی ہو گی
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں مال کی حرص اور ہوس سے محفوظ فرمائے، آمین
:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے