سورۃ التکویر: قیام قیامت اور حقانیت قرآن
اسلام

سورۃ التکویر: قیام قیامت اور حقانیت قرآن

سورۃ التکویر قرآن کریم کی 81ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ التکویر کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو مکہ مکرمہ میں آغاز رسالت کے عہد میں نازل ہوئی۔ سورۃ التکویر اُنتیس آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، التکویر کے معنی لفظی طور پر، “لپیٹ لیے جانے” کے ہیں۔ اور اس سورۃ کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے قیامت کے وقت سورج کے لپیٹ لیے جانے کا تذکرہ فرمایا ہے، اسی مناسبت سے سورۃ مبارکہ کو سورۃ التکویر کے نام سے مَوسوم کیا گیا ہے۔

اس سورۃ کا مرکزی مضمون اور بنیادی موضوع قیام قیامت کی منظر کشی پر مشتمل ہے۔ اور اس سورۃ میں رسول ﷲ ﷺ کی رسالت اور قرآن کی حقانیت بھی بیان کی گئ ہے۔

سورۃ مبارکہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے قیامت اور آخرت کے حالات بیان فرمائے ہیں۔آخرت کا سارا منظر پیش کرنے کے بعد یہ کہہ کر انسان کو سوچنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ اس وقت ہر شخص کو خود معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔

مزید اس سورۃ میں الله تعالیٰ نے ستاروں، رات اور صبح کی قسم ارشاد فرمائی ہے کہ یہ قرآن سچ ہے اور الله کی طرف سے پوری حفاظت کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور جس ذات پر بھیجا گیا ہے وہ بڑی شان والی ہستی ہے۔ نیز وحی لانے والے کی سچائی اور امانت و دیانت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں اس سورۃ مبارکہ میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان و صفات کا بیان ہے۔

سورۃ مبارکہ کے آخر میں کفار کے ایک اور اعتراض کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ قرآن مجید کسی شیطان کا کلام ہے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ کسی شیطان کا نہیں بلکہ الله رب العزت کا کلام ہے۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ التکویر کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ اور جب ستارے ماند پڑجائیں گے۔ اور جب پہاڑ چلا دیے جائیں گے۔ اور جب حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائی گی۔ اور جب وحشی جانور جمع کردیے جائیں گے۔ اور جب سمندر دہکا دیے جائیں گے۔ 

سورۃ مبارکہ کی ان ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت اور آخرت کے حالات بیان فرمائے ہیں۔ قیامت کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ وہ ہے جب یہ موجودہ نظام کائنات درہم برہم کردیا جائے گا۔ اتنی وسعت والے سورج، اس کی شعاعوں اور روشنی کو لپیٹ دیا جائے گا اور وہ بالکل بے نور ہو جائے گا۔ اور ستارے بکھر کر گرجائیں گے، ان کی روشنی ختم ہو جائیگی اور وہ بے نور ہو جائیں گے۔ سارے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اور بے وزن ہو کر زمین پر اس طرح چلنے لگیں گے جیسے فضا میں بادل چلتے ہیں۔ اہل عرب کے نزدیک اونٹ ایک قیمتی متاع سمجھا جاتا تھا اور دس ماہ کی حاملہ اونٹنی تو ان کے ہاں نہایت عزیز متاع تھی اس لیے کہ وہ ایک دو ماہ بعد بچہ بھی جنے گی اور دودھ بھی دیا کرے گی۔ اس آیت میں بتایا یہ جارہا ہے کہ قیامت کی دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ انسان کو اپنی قیمتی متاع سنبھالنے کا بھی ہوش نہ رہے گا۔ وہ ان کی پرواہ نہیں کرے گا اور چھوڑ دے گا۔ ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی۔ قیامت کے ہولناک منظر کو دیکھ کر سارے وحشی جانور بھی گھبراہٹ کے عالم میں اِکھٹے ہوجائیں گے۔ اور ایک حادثہ یہ ہوگا کہ سمندر بھڑکا دئیے جائیں گے۔ سمندروں کے بھڑکانے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُن میں طغیانی آجائے گی اور دَریا سمندر آپس میں مل کر ایک ہوجائیں گے، اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ ان کا پانی خشک ہوجائے گا، اور ان میں آگ لگادی جائے گی۔

اور جب جانوں کے جوڑ ملائے جائیں گے۔ اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔ کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی تھی ؟ اور جب اعمال نامے کھول دیے جائیں گے۔ اور جب آسمان کی کھال اتار لی جائے گی۔ اور جب جہنم دہکائی جائے گی۔ اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی۔ (اُس دن) ہر جان جان لے گی کہ اس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے۔

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر فرماتے ہیں۔ یعنی جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا ان میں سے ایک واقعہ یہ ہوگا کہ لوگ میدان حشر میں جمع ہوں گے تو ملا دیئے جائیں گے اور ان کے مختلف حصے اور جماعتیں بنا دی جائیں گی۔ مؤمنین الگ گروہ میں ہوں گے اور کافر الگ۔ پھر مؤمنوں کی بھی درجات کے اعتبار سے کئی جماعتیں اور گروہ ہوں گے، اسی طرح فاسقوں اور گنہگاروں کے بھی درجہ بدرجہ بہت سے گروہ ہوں گے۔ زندہ درگور کردہ لڑکی خود اپنے پروردگار سے فریاد کرے گی کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں زمین میں گاڑا گیا تھا؟

پھر قیامت والے دن جس وقت نامہ اعمال حساب و کتاب کے لیے کھول دیے جائیں گے، یا یہ کہ ہاتھوں میں دے دیے جائیں گے، اور جب آسمان کی کھال اتار لی جائے گی۔ یعنی آسمان پر سے پردہ اٹھا دیا جائے گا اور اس کے وہ سب رموز اور مناظر جو انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ تھے ان پر ظاہر ہوجائیں گے۔ دوزخ تو پہلے سے ہی دہک رہی ہے لیکن جب بدلے کا وقت آئے گا تو غضب الہی کا شعلہ اس کو مزید بھڑکا دے گا۔ اس دن جنت مؤمنین کے قریب کر دی جائے گی تاکہ وہ اس میں داخل ہوں۔ ان آیات میں قیامت کے دن کی مختلف کیفیات کا ذکر کرنے کے بعد جو اہم اور اصل بات بتانا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہر ایک کے سامنے اس کی حقیقت آجائے گی۔ یعنی ہر انسان کے تمام اعمال کی پوری تفصیل اس کے سامنے آجائے گی۔

تو نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے اور چھپ جانے والے ستاروں کی۔ قسم ہے رات کی جب وہ روانہ ہونے لگے۔ اور صبح کی جب وہ سانس لے۔ یقینا یہ ایک بہت باعزت پیغامبر کا قول ہے۔ جو (جبرائیل) بہت قوت والا ہے صاحب ِعرش کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔ وہاں جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امانت دار بھی ہے۔

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے ستاروں، رات اور صبح کی قسم ارشاد فرمائی ہے، ﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیچھے ہٹنے والے اور چھپ جانے والے ستاروں کی قسم ارشاد فرمائی ہے، ایسے ستارے جو سیدھا چلتے چلتے پھر پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی سورج کے پاس آکر کتنے دنوں تک غائب ہو جاتے ہیں۔ دوسری قسم ﷲ تعالیٰ نے رات کی ارشاد فرمائی ہے جب وہ روانہ ہونے لگے یعنی رات کی تاریکی غائب اور صبح کی روشنی اس پر غالب ہونے لگے۔ اور آخری قسم صبح کی ارشاد فرمائی جب وہ سانس لے یعنی صبح صادق کا وہ وقت جب رات کے سناٹے میں سے زندگی آہستہ آہستہ بیدار ہوتی ہے۔

پھر ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یقینا یہ ایک بہت باعزت پیغامبر کا قول ہے۔ یہ وہ بات ہے جس کے لیے تمام قسمیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ یہاں ” رَسُوْلٍ کَرِیْم “ سے مراد حضرت جبرائیلؑ ہیں، جو آنحضرتﷺ کے پاس وحی کے ذریعے قرآنِ کریم لایا کرتے تھے۔

مزید ان آیات میں حضرت جبرائیلؑ کی صفات کا بیان ہے کہ وہ بہت قوت والا ہے صاحب ِعرش کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔  یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص مقربین میں سے ہیں۔  حضرت جبرائیلؑ تمام فرشتوں کے سردار ہیں ۔ اس لحاظ سے آپؑ تمام فرشتوں کے مطاع ہیں یعنی تمام فرشتے آپ کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور آپ ایسے امانت دار ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام جوں کا توں انبیاء و رسل تک پہنچاتے رہے ہیں۔

 اور تمہارے یہ ساتھی کوئی مجنون نہیں ہیں۔ اور انہوں نے دیکھا ہے اس کو کھلے افق پر۔ اور وہ غیب کی بات بتانے میں بخیل نہیں ہیں۔ 

ان آیات میں اہل مکہ سے خطاب ہے نبی کریم ﷺ جب کفار کو غیب کی خبریں سناتے، قیامت کے حالات بیان کرتے، الله کی توحید کی دعوت دیتے اور اپنی نبوت کے متعلق بتاتے تو کفار کہتے (نعوذ بالله) یہ مجنوں ہو گئے ہیں۔ الله تعالی کفار کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہارے صاحب یعنی رفیق دیوانے نہیں ہیں۔ یہاں صاحب سے مراد رسول ﷺ ہیں۔ آپ کو اہل مکہ کا صاحب یعنی رفیق کہہ کر دراصل انہیں اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ آپ ان کے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں بلکہ ان کے ہم قوم اور ہم قبیلہ ہیں ۔ انہی کے درمیان آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی اور ہر شخص جانتا ہے کہ آپ نہایت عقلمند اور دانا ہیں اور یہ کہ آپ کے سچا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

الله تعالی فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ حضرت جبرئیلؑ سے خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ کیونکہ آپ نے انہیں ان کی اصل شکل میں آسمان کے مشرقی کھلے اور واضح کنارے پر دیکھا، نہایت عظمت و جلال والی صورت تھی، پورے کنارے کو گھیرے ہوئے تھے، حضرت جبرئیلؑ عام طور پر تو رسول ﷲ ﷺ کے پاس کسی اِنسان کی صورت میں آیا کرتے تھے، لیکن حضور اقدس ﷺ نے ایک مرتبہ اُنہیں اپنی اصلی صورت میں دیکھنے کی فرمائش کی تھی، اس موقع پر وہ اُفق پر اپنی اصل صورت میں بھی آپ کے سامنے ظاہر ہوئے۔ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

اسی طرح آپؐ بخیل بھی نہیں ہیں۔ رسول کریم ﷺ پر جو غیبی وحی نازل ہوتی ہے اس کے بیان میں کوتاہی نہیں کرتے۔ پوری صدق و امانت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں کسی پیغام وحی کو چھپا کر خیانت نہیں کرتے۔

اور یہ کسی شیطانِ مردود کا قول نہیں ہے۔ تو تم کدھر چلے جا رہے ہو ؟ یہ تو تمام جہان والوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے ۔ ہر اس شخص کے لیے جو تم میں سے سیدھے راستے پر چلنا چاہے۔ اور تمہارے چاہے بھی کچھ نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

سورۃ کی ان آخری آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے یہاں اس امکان کی بھی تردید کردی ہے کہ یہ قرآن شیطانی کلام ہے۔ یعنی تم لوگ یہ مت سمجھو کہ جنوں میں سے کسی شیطان نے انہیںؐ کوئی پٹی پڑھا دی ہے (معاذ اللہ) بلکہ یہ الله رب العزت کا کلام ہے۔ لوگوں کی بھلائی اور کامیابی تو اس میں تھی کہ وہ ہمارے رسولﷺ پر ایمان لاتے اور ان کی طرف جو وحی آرہی ہے اس کے نور سے اپنے دلوں کو منور کرتے، لیکن لوگوں نے اس کے بجائے آپؐ کی تکذیب اور مخالفت کی روش اپنا رکھی ہے۔ تم لوگ کبھی سنجیدگی سے غور کرو کہ اللہ کے کلام سے منہ موڑ کر تم لوگ کس طرف جا رہے ہو۔ 

قرآن مجید اپنے مضامین، اپنی خوبیوں اور اپنی روحانی تاثیر کی وجہ سے تمام جہان والوں کے لیے نصیحت و ہدایت ہے۔ یعنی قرآن ہر اس شخص کے لیے یاد دہانی ہے جو ہدایت کا طالب ہو اور پورے خلوص سے چاہتا ہو کہ وہ گمراہی سے نکل کر ہدایت کے راستے پر آجائے۔ بالفاظ دیگر یہ کلام نصیحت ہے تو ساری نوع انسانی کے لیے مگر اس سے فائدہ وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو خود راست روی اختیار کرنا چاہتا ہو، یعنی کسی انسان کو ہدایت تبھی ملے گی جب وہ خود بھی اس کے لیے ارادہ کرے اور پھر اللہ بھی اسے ہدایت دینا چاہے۔ ظاہر ہے ہر کام اللہ ہی کے اذن اور اسی کی توفیق سے ہوتا ہے۔ لیکن ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ انسان کی اپنی خواہش اور طلب کا شامل ہونا بہت ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ زبردستی کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہو تو پھر سزا اور جزا کا سارا فلسفہ ہی غلط ہوجاتا ہے۔

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ ہمیں قرآن سمجھنے، اس سے ہدایت حاصل کرنے اور صراط مستقیم پر چلنے  کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *