سورۃ الطارق: قرآن قولِ فصل
اسلام

سورۃ الطارق: قرآن قولِ فصل

سورۃ الطارق قرآن کریم کی 86ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ الطارق کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ سورۃ الطارق سترہ آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، الطارق کے معنی لفظی طور پر، “رات کو نمودار ہونے والے” کے ہیں۔ اور اس سورۃ کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے الطارق یعنی “رات کو نمودار ہونے والے ستارے” کی قسم ارشاد فرمائی ہے، اسی مناسبت سے سورۃ مبارکہ کا نام سورۃ الطارق ہے۔

اس سورۃ کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے، حشر اور حساب و جزا پر ایمان لانے کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔ اور قرآنِ پاک کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے، بیشک قرآن ضرور فیصلہ کر دینے والا کلام ہے۔

سورۃ مبارکہ ابتداء میں آسمان اور رات کے وقت خوب چمکنے والے ستارے کی قسم ارشاد فرما کر یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ متعدد فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ جو اس کی ہر طرح سے حفاظت کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں اس سورۂ مبارکہ انسان کو اپنی تخلیق کی ابتداء میں غور کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ پہلی بار پیدا کرنے والا رب تعالیٰ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ اور یہ کہ جب قیامت کے دن عقائد، اعمال اور نیتیں ظاہر کر دی جائیں گی تو اس وقت مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والے کے پاس کوئی طاقت اور کوئی مددگار نہ ہوگا جو اسے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے۔

مزید اس سورۃ میں آسمان اور زمین کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا گیا کہ قرآنِ مجید کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں بلکہ یہ حق اور باطل میں فیصلہ کر دینے والا کلام ہے۔

سورۃ مبارکہ کے آخر میں ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ  کفار اللّٰہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ان کے بارے میں اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہے جس کی انہیں خبر نہیں۔ اور کافروں کو مہلت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ الطارق کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی۔ اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ رات کو نمودار ہونے والا کیا ہے ؟ وہ تارا ہے چمکنے والا۔ کوئی جان ایسی نہیں جس پر کوئی نگہبان نہ ہو۔ 

سورۃ مبارکہ کے آغاز میں ﷲ تعالیٰ نے آسمان اور رات کے وقت نمودار ہونے والے کی قسم ارشاد فرمائی ہے۔ اور آپ کو کچھ علم ہے کہ الطارق کیا چیز ہے، وہ رات کے وقت نمودار ہونے والا روشن ستارہ ہے۔ آسمان اور روشن ستارے کی قسم ارشاد فرما کر یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہ کوئی اِنسان ایسا نہیں ہے جس پر کوئی نگراں مقرّر نہ ہو، جو اس کی ہر طرح سے حفاظت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ متعدد فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔  ان میں سے کچھ اس کے اعمال کا ریکارڈ مرتب کرنے میں مصروف ہیں جبکہ کچھ کو اس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔   

تو انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ پیدا کیا گیا ہے اچھلتے ہوئے پانی سے۔ جو نکلتا ہے پیٹھ اور پسلیوں کے درمیان سے۔ یقینا وہ اسے لوٹانے پر بھی قادر ہے۔

ان  آیاتِ کریمہ میں انسان کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ ذرا اپنی پیدائش پر بھی غور کر لے کہ وہ کس چیز سے اسے پیدا کیا گیا ہے، وہ ایک اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پشت اور عورت کے سینہ کے درمیان سے نکلتا ہے یعنی مرد اور عورت کے نطفوں سے پیدا کیا، جو کہ عورت کے رحم میں مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔

انسان کی تخلیق کو بطور دلیل پیش کر کے ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس اللہ نے پانی کی ایک بوند سے انسان کی تخلیق کی ہے وہ یقینا اس پر بھی قادر ہے کہ جب چاہے اسے اپنے پاس واپس بلا لے۔ اور یقینا وہ اس کے مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کر دینے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔

جس دن تمام چھپے ہوئے رازوں کی جانچ پڑتال ہوگی۔ تو نہیں ہوگی کسی انسان کے لیے کوئی طاقت اور نہ ہوگا اس کا کوئی مددگار۔ 

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کے تمام ظاہر اور پوشیدہ اسرار کی پڑتال کی جائے گی۔ پوشیدہ اسرار سے مراد عقائد، نیتیں اور وہ اعمال ہیں جن کو آدمی چھپاتا ہے اور قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ ان سب کو ظاہر کر دے گا۔ پھر فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے دن انسان کے عقائد، اعمال اور نیتیں ظاہر کر دی جائیں گی تو اس وقت موت کے بعد دوبارہ زندگی کا انکار کرنے والے کے پاس کوئی طاقت اور کوئی مددگار نہ ہوگا جو اسے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے۔ یعنی خود انسان کے پاس اتنی قوت نہ ہوگی کہ وہ خدا کے عذاب سے بچ جائے نہ کسی اور طرف اس کو کوئی ایسا مددگار مل سکے گا جو اس کو اللہ کے عذاب سے بچا دے۔

قسم ہے اس آسمان کی جو بارش برساتا ہے وقفے وقفے سے۔ اور قسم ہے اس زمین کی جو پھوٹ پڑتی ہے۔ یہ (قرآن) ایک جچی تلی بات ہے۔ اور یہ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے۔ 

ان  آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کی قسم ارشاد فرمائی ہے قسم ہے آسمان کی جس سے بار بار بارش ہوتی ہے، اور قسم ہے زمین کی جو نباتات کے لیے پھٹ جاتی ہے۔

ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آسمان سے بارش ہوتی ہے اور بارش کی وجہ سے نباتات زمین کو پھاڑتے ہوئے اُگ آتے ہیں۔ یعنی آسمان اور زمین کو اس حقیقت پر گواہ بنایا گیا ہے کہ قرآن قولِ فصل ہے، اس میں شک نہیں کہ قرآن  قولِ فصل ہے، یعنی کھول کر بیان کرنے والا، فیصلہ کر دینے والا کلام ہے جس سے حق اور باطل دونوں واضح ہوجاتے ہیں۔

یعنی جس طرح آسمان سے بارشوں کا برسنا اور زمین کا شق ہو کر نباتات اپنے اندر سے اگلنا کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے، اسی طرح قرآن جس چیز کی خبر دے رہا ہے کہ انسان کو پھر اپنے خدا کی طرف پلٹنا ہے، یہ بھی کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں ہے بلکہ ایک دو ٹوک بات ہے، ایک سنجیدہ حقیقت ہے، ایک اٹل قول حق ہے جسے پورا ہو کر رہنا ہے۔

یہ لوگ اپنی سی چالیں چل رہے ہیں۔ اور میں بھی اپنی چال چل رہا ہوں۔ تو کافروں کو مہلت دے انہیں تھوڑے دنوں چھوڑ دے۔ 

ان آخری آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کفارِ مکہ دین حق کو مٹانے، اس کو ناکام کرنے کے لئے سازشیں کرتے ہیں، اور رسول ﷲ ﷺ کو تکلیف پہنچانے کے لئے طرح طرح کی چالیں چل رہے ہیں اور میں اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہوں جس کی انہیں خبر نہیں یعنی میں ان کی چالوں اور سازشوں سے غافل نہیں ہوں، ان کی کوئی چال کامیاب نہ ہو پائے گی، اور یہ آخر کار منہ کی کھا کر رہیں گے، اور وہ نور پھیل کر رہے گا جسے یہ بجھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

سورۃ کی آخری آیت میں حضورﷺ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپؐ ان کافروں کے لیے جلدی نہ کریں‘ ان کے بارے میں تھوڑی دیر انتظار کریں، ان کو ذرا مہلت دے دیجیے یعنی ان کے لئے جلدی عذاب کا سوال نہ کریں بلکہ تھوڑی دیر انہیں (ان کے حال پر) چھوڑ دیجیے۔ جب وقت آئے گا تو اﷲ تعالیٰ ان کو خود اپنی پکڑ میں لے لے گا۔ کچھ زیادہ مدت نہ گزرنے پائے گی کہ ان لوگوں کا انجام سب کے سامنے آجائے گا۔ 

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *