سورۃ التین قرآن کریم کی 95ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔ سورۃ التین کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو کہ آٹھ آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، التین کے معنی انجیر کے ہیں۔ اس سورۃ کی ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انجیر کی قسم کھائی ہے۔ اسی لیے اس سورۃ کا نام سورۃ التین رکھ دیا گیا۔
سورۃ التین، قرآن کریم کی ان سورتوں میں سے ایک ہے جن کی ابتدا قسم سے ہوتی ہے اور اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے شروع میں ہی چار قسمیں کھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کو مختلف قسموں سے شروع کرتے ہوئے انسان کا مرتبہ اور مقام بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ انسان کی خلقت سب سے بہتر اور اچھی خلقت ہے۔
اس سورۃ مبارکہ میں انسان کا عروج و زوال بیان کیا گیا ہے کہ بہترین خلقت کا امتیاز لے کر وجود میں آنے والا انسان اپنے ہاتھ سے پست ترین حالت میں جا گرتا ہے۔ البتہ ایمان والا اور نیک اعمال کرنے والا کائنات میں اپنا امتیاز اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ برقرار رکھتا ہے
یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ التین کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔
قسم ہے انجیر اور زیتون کی
سورۃ کی اس ابتدائی آیتِ کریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے انجیر اور زیتون کی قسم ارشاد فرمائی کیونکہ ان چیزوں میں ایسے فوائد اور منافع موجود ہیں جو ان کے خالق، رب تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتے ہیں ،جیسے انجیر انتہائی عمدہ میوہ ہے جس میں گھٹلی نہیں اور یہ بہت جلد ہضم ہونے والا، زیادہ نفع والا ہے جبکہ زیتون ایک مبارک درخت ہے، اس کا تیل روشنی کے کام لایا جاتا ہے ، سالن کی طرح کھایا بھی جاتا ہے اوریہ وصف دنیا کے کسی تیل میں نہیں، اس کا درخت خشک پہاڑوں میں پیدا ہوتا ہے جن میں چکنائی کا نام و نشان نہیں، بغیر خدمت کے پرورش پاتا ہے اور ہزاروں برس باقی رہتا ہے۔
لیکن بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں انجیر اور زیتون کے درخت کی قسم نہیں کھائی گئی بلکہ اس سرزمین کی قسم کھائی گئی ہے جس میں یہ درخت بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ اور وہ علاقہ شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔ اہل عرب کا جس طرح یہ قاعدہ ہے کہ وہ کسی چیز کا جزو اشرف بول کر اس سے مراد اصل چیز لے لیتے ہیں۔ اسی طرح ان میں یہ بھی دستور ہے کہ وہ کسی علاقہ کی مشہور پیداوار کا نام لے کر اس سے وہ علاقہ مراد لے لیتے ہیں اور اس بات کی تائید اس سورۃ کی اگلی دو آیات سے بھی ہوجاتی ہے یعنی طور سینین اور شہر مکہ سے کہ یہ سب مقامات انبیاء کے مولد و مسکن رہے ہیں۔
اور طور سینین کی
اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کوہ طور کی قسم ارشاد فرمائی ہے، طور وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ ؑ کو دو دفعہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ اور اسی مقام پر موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا کی گئی اور تورات دی گئی تھی اور یہاں آپؑ اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے تھے۔ سینا اس مبارک جگہ کا نام ہے جہاں یہ پہاڑ واقع ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس جگہ اور مقام کو اللّٰہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے ساتھ نسبت حاصل ہو جائے وہ جگہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عظمت والی ہو جاتی ہے۔
اور اس امن والے شہر (مکہ)کی
اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے جو چوتھی قسم ارشاد فرمائی ہے، وہ ہے ایک امن والے شہر کی جس سے مراد مکہ مکرمہ ہے جہاں محمد رسول اللہ ﷺ اس سورۃ کے نزول کے وقت دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے،
شہر مکہ جو حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ نے آباد کیا اور جہاں رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے۔ اسے بلد امین اس لئے فرمایا ہے کہ ابراہیم ؑ نے اس کے لئے دعا کی تھی:
رب اجعل ھذا بلداً امناً (البقرۃ : ١٢٦) اے میرے رب اس (جگہ) کو ایک امن والا شہر بنا دے۔
اس شہر مکہ میں قتال کی اجازت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جو اس میں داخل ہوجائے، اسے بھی امن حاصل ہوتا ہے۔
ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔
ابتدائی آیات میں مذکور اشیاء اور انبیاء کے مساکن کی قسم اللہ تعالیٰ نے اس بات پر کھائی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین ساخت پر پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے آدمی کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ،اس کے اَعضاء میں مناسبت رکھی، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اوراسے علم، فہم، عقل، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مُزَیّن کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو اشرف المخلوقات کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کیا۔
پھر ہم نے لوٹا دیا اس کو پست ترین حالت کی طرف۔
اس سے پہلی آیت میں ساری مخلوقات اور کائنات سے احسن بنانے کا بیان تھا، اس آیت میں اس کے بالمقابل یہ بتلایا گیا ہے کہ آخر میں اس پر یہ حالت بھی آتی ہے کہ وہ بد سے بدتر اور برے سے برا ہوجاتا ہے ظاہر یہ ہے یہ اشارہ ہے انسان کی ارذل العمر کی طرف جس میں جوانی اور قوت کے بعد بڑھاپا اور ضعف آجاتا ہے۔ مفسرین نے دوسرا معنی یہ بیان کیا ہے کہ جب اس نے اچھی شکل و صورت کی شکر گزاری نہ کی ،اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی پر جما رہا اور ایما ن نہ لایا تو اس کا انجام یہ ہو ا کہ ہم نے جہنم کے سب سے نچلے دَرجات کو اس کا ٹھکانا کردیا۔
اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ بہترین ساخت پرپیدا کیے جانے کے بعد جب انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی ۔ گویا انسان اللہ اور رسول کی اطاعت سے انحراف کر کے اپنے آپ کو احسن تقویم کے بلند رتبہ واعزاز سے گرا کر جہنم کی اسفل سافلین میں ڈال لیتا ہے۔
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے بےانتہا اجر ہے
اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس مذکورہ پستی سے صرف وہی لوگ نکل پائیں گے جو اپنے شعور و حواس سے کام لیتے ہوئے اپنے خالق اور معبود کو پہچانیں گے یعنی اس پر ایمان لائیں گے اور پھر محنت کر کے اپنے کردار و عمل کو اس کی منشاء ومرضی کے مطابق ڈھالیں گے ‘ یعنی اعمال صالحہ کا اہتمام کریں گے۔ یہی لوگ اس صفت احسن تقویم کا حق ادا کرتے ہیں۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا تھا اور انہی لوگوں کے لیے اخروی نجات اور غیر منقطع اجر ہوگا۔
تو اس کے بعد کیا چیز تجھے آمادہ کرتی ہے جزا و سزا کے انکار پر
یہ آیت انسان سے خطاب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا، پھر بعض نے تو اس ساخت کے تقاضوں کے مطابق ایمان اور عمل صالح اختیار کیا اور بعض نافرمانی کی وجہ سے ” اسفل السلافلین “ ٹھہرے۔ ان دونوں کے عمل کا لازمی نتیجہ ہے کہ ایک دن ایسا ہو جس میں ہر ایک کو نیکی اور بدی کی جزا و سزا دی جائے۔ اور یہی چیز نظریہ آخرت ہے۔ دراصل اس آیت میں منکرین قیامت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اتنی واضح دلیل کے بعد اے انسان تجھے کون سی چیز آمادہ کر رہی ہے کہ تو جزا و سزا کو جھٹلا دے؟
کیا اللہ تمام حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے
سورۃ کی اس آخری آیتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ سوال کر رہے ہیں کہ جب دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاکموں سے بھی تم یہ چاہتے ہو اور توقع رکھتے ہو کہ وہ انصاف کریں، مجرموں کو سزا دیں اور اچھے کام کرنے والوں کو صلہ و انعام دیں، تو خدا کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا تم اللہ تعالیٰ کو احکم الحاکمین نہیں مانتے ہو؟ اگر تم اس کو سب سے بڑا حاکم مانتے ہو تو کیا اس کے با رے میں تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ کوئی انصاف نہ کرے گا ؟ کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ برے اور بھلے کو ایک جیسا کر دے گا ؟ کیا اس کی دنیا میں بد ترین افعال کرنے والے اور بہترین کام کرنے والے، دونوں مر کر خاک ہو جائیں گے، اور کسی کو نہ بد اعمالیوں کی سزا ملے گی نہ حسن عمل کی جزا؟
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی سورة التین پڑھے اور اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ پر پہنچے تو کہے: بلٰی وانا علٰی ذٰلک من الشاھدین ” کیوں نہیں اور میں اس پر شہادت دینے والوں میں سے ہوں “۔
سورۃ التین میں اللہ تعالیٰ انسان سے سوال کرتے ہیں کہ کیا تو نے اپنی صورت میں، اپنی تخلیق کی میں، اپنی جوانی اور بڑھاپے میں غور نہیں کیا تاکہ تو یہ کہہ دیتا کہ جو ذات ان چیزوں پر قادر ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مجھے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے اور مجھ سے میرے اعمال کا حساب لے اور اس قطعی دلیل اور روشن حجت کے بعد اب کونسی چیز تجھے انصاف کے دن کو جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے اور تو اللّٰہ تعالیٰ کی یہ قدرتیں دیکھنے کے باوجود کیوں مرنے کے بعد اٹھائے جانے، قیامت کے دن حساب ہونے اور اعمال کی جزا ملنے کا انکار کرتا ہے۔
ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اعمالِ صالح کرنے اور اپنے احسن تقویم ہونے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے