ٹیپو سلطان: استعمار کی آواز
متفرق

ٹیپو سلطان: استعمار مخالف کی آواذ

ٹیپو سلطان میسور سلطنت کے حکمران تھے، جو کہ ہندوستان کے جنوبی میں واقع ہے- وہ بریٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ہوئ جنگوں میں اپنی دلیری کے لۓ جانے جاتے تھے-

ٹیپو سلطان نے جو منگلور معاہدہ پر دستخط کیا تھا، بریٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ دوسری اینگلو- میسور جنگ کے اختتام کے لۓ، وہ آخری سند ہے جس میں کسی ہندوستانی حکمران نے شرائط طے کۓ ہونگے- حیدر علی کے بڑے بیٹے کے طور پر، ٹیپو سلطان ۱۷۸۲ میں اپنے والد کے وفات پر تخت نشین ہوۓ- بطور حکمران، انہوں نے کئ تبدیلیاں نافذ کي، مِثالاً میسور میزائل کا استعمال میں لانا، جو کہ جلد ہی جنگوں میں استعمال کی جانے لگی- ان کے والد کا فرانس سے سفارتی سیاسی تعلقات تھے- اس طرہ ٹیپو سلطان نے نوجوانی میں فرانسیسی افسران سے فوجی تربیت حاصل کی- جب وہ پادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے والد کی تدبیر، انگریزوں کے ساتھ فرانسیسیوں کی جدوجہد جاری رکھی- ٹیپو سلطان بریٹش ایسٹ انڈیا کمپنی سے اپنے سلطنت کی حفاظت کرنے کے لۓ بیتاب تھے-

ابتدائ ذندگی

ٹیپو سلطان کی پیدائش ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ کو بینگلور میں حیدر علی کے گھر میں ہوئ تھی- ان کے والد میسور سلطنت کی خدمت میں ایک فوجی افسر تھے، جو کہ جنوبی ہندوستان میں واقع ہے- حیدر علی نے تیزی سے حکومت پر قبضہ کر لیا اور ۱۷۶۱ میں میسور سلطنت کے حقیقی حکمران بن گۓ- حیدر انپڑھ تھے اور سلطنت کے وارث ( ٹیپو سلطان ) کو اچھی تعلیم دینا چاہتے تھے- نوجوان شہذادے نے ہندی-اردو، فارسی اور عربی، قرآن، اسلامی فقہ، گھڑ سواری، تیر انراذی اور پٹے بازی جیسے مضامین کا مطالبہ کیا- ٹیپو سلطان کو فوجی اور سیاسی ہنر اعلی تعلیم یافتہ فرانسیسی افسران کے تحت کروائ گئ-

ان کی اول جنگ

ان کی عمر سرف ۱۵ برس تھی جب انہوں نے اپنے والد کے ساتھ پہلی میسور جنگ میں شرکت کی تھی- یہ جنگ انگریذوں کے خلاف ۱۷۶۶ میں لڑی گئ تھی- انہیں پہلی دفعہ یہ موقع حاصل ہوا کہ وہ اپنی فوجی تربیت کا جنگ میں استعمال کریں، جب انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مالابار پہ چڑھائ کی- لڑکے نے ۲۰۰۰-۳۰۰۰ کی فوج کی قیادت کی اور ہوشیاری سے مالابار کے صردار کے خاندان کو اثیر کر لیا، جنہوں نے بھاری محافذ کے تحت قلعے میں پناہ لی تھی- اپنے خاندان کی حفاظت کہ فقر سے، سردار نے ہار مان لی، اور دوسرے مقامی رہنماؤں نے جلد ہی ہتھیار ڈال ديۓ- حیدر علی کو اپنے بیٹے پر اتنا فخر ہوا کہ انہوں نے ۵۰۰ رسالہ کہ فرمان اپنے بیٹے کو سونپ دی- انہوں نے ٹیپو سلطان کو پانچ اضلاع کہ حکمرانی کے لۓ بھی مقرر کر دیا- یہ اس نوجوان کہ شاندار فوجی کیریئر کا آغاذ تھا-

اپنے والد کے دور حکومت میں، ٹیپو سلطان نے انگریذوں کے خلاف اہم فتح حاصل کی اول اور ثانی اینگلو-میسور جنگ میں- اول اینگلو-میسور جنگ ۱۷۶۶-۱۷۶۸ میں، رسالہ کہ سربراہ نوجوان نے پورے کرناٹک کو غارت کر دیا- ماراٹھاؤں کے خلاف جنگ میں ۱۷۷۵-۱۷۷۹، اس نے مالابار کے ساحل پر اپنے فرض کہ شاندار اداکاری کی- ثانی اینگلو-میسور جنگ کہ آغاذ کے دوران، اس نے انگریذی فوجوں کو ۱۰ستمبر ۱۷۸۰ میں پولیلور اور ۱۸ فروری ۱۷۸۲ میں انیگنڈی میں کراری شکست دی اور انگریذوں کے لۓ ایک ناذک صورت حال پیدا ہو گئ- بہرحال بریٹش ایسٹ انڈیا کمپنی میسور-حیدرآباد اور ماراٹھاؤں حلیف کو رشوت دینے میں کامیاب ہو گئ اور اس طرہ اپنے صورت حال کو الٹ دیا-

میسور کے حکمران

۷ دسمبر ۱۷۸۲ میں ثانی اینگلو-میسور جنگ کے درمیان حیدر علی کا انتقال ہو گیا؛ ٹیپو سلطان فوری میسور واپس آئيں، جہاں انہوں نے اپنے بھائ عبد الکریم کو شکست دی اور ۲۲ دسمبر کو تخت نشین ہوۓ- ۱۷۸۲ میں فرانسیسی رسالہ کی مدد آنے کے بعد میسور کے لوگوں کے صورت حال میں کچھ بہتری آئ- ۱۷۸۳ میں ٹیپو نے میتھیو کی فوج کو بدنور میں گھیرا اور گرفتار کر لیا- حالانکہ ورسیلذ کا معاہدہ ۱۷۸۳ جو کہ انگلینڈ، فرانس اور سپین کے درمیان ہوا تھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میسور کو فرانسیسی مدد سے محروم کر دیا گیا- مَجبُوراً ہندوستانی سلطنت کو برطانوی حکومت سے مذاکرات شروع کرنا پڑا-

جنگ کا اختتام میسور کی فوج کہ طرف سے انگریذؤں کے قبضے سے منگلور بندرگاہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش تھی- اس نے ۱۷۸۴ میں ہتھیار ڈالے جب نصف برطانوی فوجی چھاؤنی فاقوں اور گوشت خوری سے مر گئ- اپنے والد کے فوت کے ایک سال بعد، ۱۱ مارچ ۱۷۸۴ کو انگریذوں کے ساتھ منگلور معاہدہ کا نتیجہ اخذ کیا، جس میں بحال کو تحفظ، گرفتار قیدیوں اور قبضہ کۓ گۓ علاقوں کا ادل بدل فراہم ہوا- یہ آخری دفعہ تھا جب ہندوستانی حکامین نے انگریذوں کے لۓ شرائط طے کی تھیں- آخرکار ۱۸۷۴ میں منگلور معاہدہ انگریذوں کے ساتھ کامیاب ہوا جس سے ثانی اینگلو-میسور جنگ کا اختتام ہوا-

ثالث اور چہارم جنگ

ٹیپو سلطان کی ثالث جنگ کا اختتام ان کی شکست سے ہوا- پہلے تو، وہ اور ان کے حلیف حیدرآباد کے نظام، انگریذوں کو شکست دینے میں کامیاب رہیں- لیکن تب تک وہ اپنے سبھی وسائل کو لام بند کر چکے تھے، انگریذوں نے میسور کہ دارالحکومت، سیرنگاپٹم، کو چارو طرف سے گھیر لیا- اس کے بعد ٹیپو سلطان کو مَجبُوراً ۱۷۹۲ میں سیرنگاپٹم معاہدہ پر دستخط کرنا پڑا، جس کے مطابق میسور نے اپنے نصف علاقے ترک کر دۓ اور اسے بھاری معاوضہ ادا کرنے پر مجبور کیا گیا-

۱۷۹۹ کہ چوتھی جنگ میں ۴ مئ ۱۷۹۹ میں سیرنگاپٹم کو انگریذی فوج نے تباہ کر دیا، ٹیپو سلطان اس جنگ میں شہید ہو گۓ اور شہر کو خوفناک لوٹ مار اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا- وہ کئ سالوں تک ہندوستانی تاریخ میں ایک اختلافی شخسیت رہیں-

ان کے مخالف انہیں ۲۷ کیتھولک گرجا گھروں کی تباہی اور ۲۰۰ براہمنوں کو ذبردستی اسلام قبول کروانے کی صفت دیتے ہیں، اور ہمدرد تاریخ داں جیسے محمود خان بنگلور نے اپنی کتاب “سلطنت خراداد” ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے ہندو خانقاہوں کو مالی مدد مہیا کیا تھا، انہیں سونے اور چاندی کے ذیورات دۓ تھے- ان کے دو اہم صلاح کار میر صادق، ایک مسلمان، اور پورنایا، ایک ہندو برہمن تھا- دونوں نے ہی ٹیپو سلطان کو انگریذوں سے منحرف ہو کر دھوکہ دیا- ہندو ان کی ادالت میں اہم عہدے پر فائذ تھے جن میں مغل دربار میں خذانچی اور نمائندہ شامل تھے- ان کے محل کے نذدیک سیرنگاپٹم میں دو ہندو خانقاہیں تھی-

یہ دلیر محارب کا انتقال ۴ مئ، ۱۷۹۹ میں چوتھی اینگلو-میسور جنگ میں برطانوی فوجوں سے لڑتے ہوے ہوا- لوگ انہیں “میسور کے شیر” سے جانتے ہیں، جو جانور ان کے حکمرانی کا علامت تھا- بریٹش نیشنل آرمی میوزیم نے انہیں سب سے بڑے فوجی کمانڈروں کے عہدے پر فائض کیا جس کا برطانوی فوج نے کبھی سامنا کیا ہے-

نتیجہ

ان کی آل اولاد کو کلکتہ ملک بدر کر دیا گیا، جہاں وہ بےحد غربت اور محرومی میں رہیں- شہزادی نور عنایت خان، جو کہ انہیں کے گھرانے سے تھی اور جنہوں نے نازیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا- وہ بریٹش اسپیشل سروسز کی خفیہ ایجنٹ تھیی- نازیوں نے اسے دریافت کیا اور اسے حراستی کیمپ بھیج دیا۔ وہاں تکلیف جھیلنے کے بعد انہیں ستمبر ۱۹۴۴ میں مار دیا گیا- تاریخی اندازوں میں اختلاف کے باوجود ٹیپو سلطان ہندوستان کی تاریخ میں باصلاحیت اور قابل مسلمان حکمرانوں میں سے ایک کے طور پر یاد کیۓ جایۓ گے، جو طویل عرصے تک برطانوی استعمار کے حملے کو برداشت کر سکے

حوالہ جات

ہسٹری ٹوڈے

دی اکونومک ٹائمس

انڈیٹوی

مزید دلچسپ مضامین