سورہ اخلاص یا اخلاص قرآن مجید کی ایک سو بارہویں سورت ہے جو صرف چار آیات پر مشتمل ہے۔ اسے سورہ توحید (وحدانیت) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سورت میں وحدانیت کے تصور کا خلاصہ جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ قرآن کی ان بہت کم سورتوں میں سے ایک ہے جن کا نام خود سے سورت میں نہیں ہے۔ اس کی بجائے ان کے معنی اور موضوع کے پیش نظر ان کا نام لیا گیا ہے۔
حضرت عائشہ رضي الله عنه بیان کرتی ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کے حکم پر ایک لشکر بھیجا جو اپنے ساتھیوں کی نماز میں قیادت کرتا تھا اور اپنی تلاوت سورہ اخلاص پر ختم کرتا تھا کہ کہہ دو وہی الله ہے۔ جب وہ (جنگ سے) واپس آئے تو انہوں نے نبی سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے انہوں نے اس سے پوچھا تو وہ بولا میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کہ اس میں مالک ھقیقی کا ذکر ہے اور میں اسے (اپنی نماز میں) پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ نبی کہا اس سے کہہ دو کہ الله اس سے محبت کرتا ہے۔
ترجمہ
کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے۔ معبود برحق جو بےنیاز ہے۔ وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
تفسیر
کہہ دو وہی الله ہے
اس آیت میں اللہ کی یگانگت کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے جوہر کو رقم کرتا ہے اور ہر قسم کی مشرکیت اور بت پرستی کی نمائی کو ترک کرتا ہے۔ لفظ احد یعنی ایک، قرآن میں صرف اللہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اللہ فرماتا ہے
اگر آسمان اور زمین میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم برہم ہوجاتے۔ جو باتیں یہ لوگ بتاتے ہیں خدائے مالک عرش ان سے پاک ہے
سورة الأنبياء آیت 22
الله کا کوئی شریک اور مددگار نہیں۔ عبادت صرف اللہ ہی کی، کی جاتی ہے کیونکہ وہی عبادت کے لائق ہے۔ جیسا کہ سورہ اسریٰ میں اللہ کا فرمان ہے
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو
سورة الإسراء آیت 23
الله معبود برحق ہے
اس آیت میں اللہ نے اپنی کامل صفات میں سے ایک وصف سے اپنی طرف اشارہ کیا ہے۔ اصمد بھی اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
قرآن کے مختلف مترجمین نے اللہ کو ابدی پناہ، خود کفیل، مطلق اور وہ کہا ہے جس پر سب کا انحصار ہے اور جس کی طرف تمام مخلوق اپنی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کے لیے رجوع کرتی ہے۔ پس جہاں ساری دنیا اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے اللہ پر منحصر ہے وہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔
جیسا کہ سورہ نمل میں مذکور ہے
پروردگار بےپروا (اور) کرم کرنے والا ہے
سورة النمل آیت 40
نہ الله کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے جنم دیا۔ دوسرے لفظوں میں اس کی کوئی ابتدا نہیں ہے اور اس لیے اس کا کوئی خاتمہ نہیں ہے۔الله ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے لیکن اسے کسی طاقت نے پیدا نہیں کیا۔
کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ یہ بالکل واضح ہے کہ اللہ، حتمی طاقت ہے، ہر چیز سے بالاتر ہے اور بہت سے مشرک الله کے ساتھ ساتھ بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی ناحق شریک بناتے ہیں تاہم سورہ اخلاص کی اس خاص آیت میں اس سلسلے میں کسی بے یقینی کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔
جیسا کہ سورہ الانم میں اللہ فرماتا ہے:
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (ہے)۔ اس کے اولاد کہاں سے ہو جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے
سورة الأنعام آیت 101