سورہ الواقعہ کی اہمیت اور فضائل
تاریخ

حضرت بلال بن راباح رضی اللہ عنہ: پہلے مؤذن کہ ذندگی

تاریخ میں پہلی دفعہ، دعوہ حجرت کے پہلے سال میں دیا گیا تھا- تب سے، یہ پوری دنیا میں سنا گیا ہے بےغیر کسی رکاوٹ کے- یہ الفاذ ایک خاص علامت بن گۓ ہیں، یعنی مسلمانوں کے لۓ صلوٰۃ کہ پکار بن چکے ہیں- ہم دن میں پانچ دفعہ مسجد کہ مینار سے آزان کی پکار سنتے ہیں- آزان کو پہلی دفعہ آواز دینے کا عظیم اعزاز نبی کے ممتاز ساتھی حضرت بلال بن راباح رضی اللہ عنہ کو ملا- انہوں نے مکہ میں اسلام قبول کیا تھا، اللہ سبحانه و تعالى‎ کی راہ میں بہت تکلیف جھیلی تھی، اور پھر حجرت کۓ تھے-

جب اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز کے لیے اذان دینے کا بہترین طریقہ چننا چاہتے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سمیت صحابہ رسول نے آزان کا قاعدہ اپنے خواب میں سنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی مطلع دی- مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوۓ، جن کے پاس ایک خوبصورت آواز تھی، انہیں کھڑے ہو جانے اور آزان کہ تلاوت کرنے کو کہا- بلال رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، مدینہ کے سبھی باشندوں کو ناماز کے لۓ اجتماع کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے مؤذن بن گۓ-

قبول اسلام

بلال رضی اللہ عنہ اصل میں ایتھوپیا کے سیاہ غلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے- وہ ایک لمبے پتلے قد کے آدمی تھے، تھوڑے کوہانی- وہ خالوش رہتے تھے اور کبھی گفتگو پہلے شروع نہیں کرتے تھے-

بلال رضی اللہ عنہ کو طبقاتی نظام نے محدود کر رکھا تھا، بنو جمہ کے سخت ترین قبیلے کے ہاتھوں میں ایک حبشی غلام ہونا، زمانہ جاہیلیت کے سب سے خوفناک کافر کی چابک کے نیچے – بلال رضی اللہ عنہ – تھے-

بہرحال جو چیز ان کہ شخسیت کو الگ کرتی تھی، انہیں ہر وقت کے لۓ اور تمام لوگوں کے لۓ ایک قابل رول ماڈل کے طور پر پیش کرتی ہے، اور ان کے درجہ کو بلند کرتی ہے، وہ ان کہ سچی، پرجوش اور اٹل ایمان ہے- یہ ایک معاجزہ ہے کہ ایک جاہل غلام اپنی بیسوی دہائ کے اوائل میں، جس کی پرورش اور تربیت انتہائ افسوسناک اقدار میں ہوئ ہو، مکمل بدل جاتا ہے ایک مختصر ترین وقت میں- انہوں نے اپنی تبدیلی کا حیران کن اثر پیش کیا ہے، اخلاقی اور جسمانی اذیتوں کے باوجود-

بلال نے پہلی دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سنا اپنے مالک کہ ان کے مہمانوں سے گفتگو کے دوران- انہوں نے جلد ہی اپنے آپ کو مسلمان بننے کے لۓ تیار پایا- انہیں معلوم تھا ان کا واحد درست فیصلہ یہ تھا کہ وہ ادل و وقار کے دین کو اپنائں – اسلام، جو انہوں نے بعد میں قبول کیا-

بلال کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کا دعوہ سننا پسند تھا، جو کہ ایک دوسرے صحابہ رصول تھے- آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے دل کو اس مذہب سے مضبوطی سے وابستہ پایا- وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گۓ اور اسلام قبول کر لیا- وہ ساتویں انسان تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا- ابو بکر اور دوسرے لوگ جو کہ اس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، قبیلہ قریش کے نقصان سے محفوظ تھے- یہ قبیلہ اسلام کی سخت مخالفت کرتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جیید دشمن تھا- 

بلال بن راباح رضی اللہ عنہ کی عظم و عاجزی

اس وقت، کفار کا قہر مسلمانوں پہ نازل ہوا، جو کسی قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے تھے جو انہیں حفاظت دے سکے- بلال کے کافر مالک انہیں سخت غرمی والے دن صبح جوشن بکتر پہنا کر گھر سے نکلنے پر مجبور کرتے تھے- وہ بلال رضی اللہ عنہ کو منہ کے بل ریت پر پھینک دیتے اور دھوپ میں چھوڑ دیتے- وہ صرف انہیں پیٹھ پر پھیرنے کے لۓ واپس آتے-

وقتا فوقتا، بلال ہولناک تکلیف کہ وجہ سے، ہوش کھو دیتیں- جب انہیں ہوش آتا تو ان کا سامنا ان کے آقا کہ غصے سے ہوتا، جو چاہتے تھے کہ وہ اسلام چھوڑ دیں- بلال کے کافر آقا، جن کا دل سخت اور شریر تھا، کہتے؛ “تمہیں مر جانا چاہیے یہ اللہ کہ ذات کو انکار کرنا چاہیے”- لیکن مضبوط اور دلیر بلال، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کہ محبت سے لبریز تھے، انہیں کوئ اندیشہ نہ تھا، وہ اس سخن ور اور لارگر جملے کو دہراتے: ” اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے”-

اس کے باوجود کی بلال نے ایک کے بعد ایک زحمت اٹھائ، وہ چٹان کہ طرہ قائم اور ثابت قدم رہیں- وہ امید اور اعتماد سے بھرے ہوے تھے کہ اللہ انہیں جلد ہی بچا لے گا- ان پریشانیوں نے ان کا اللہ سبحانه و تعالى‎ پہ یقین کمزور کرنے کہ بجاۓ ان کے عقیدے اور استقامت میں اضافہ کر دیا- ان کا جسم ذخمی تھا، ان کا معدہ خوراک چاہتا تھا اور وہ تھکاوٹ کہ وجہ سے رو رہے تھے، لیکن اسی وقت ان کہ روح مظبوط اور ایمان کہ روشنی سے بھرا ہوا تھی-

غلامی سے آزادی کے بعد کی زندگی

آزادی کے بعد، بلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے- پھر انہوں نے مدینہ کے لۓ حجرت کر لی، جہاں وہ بعد میں آذان دینے لگے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت ان کہ حیسیت بڑھ گئ، صرف ان کے ایمان کی وجہ سے-

اسلام کے دایرے میں ان کہ حیسیت بڑھ گئ؛ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ لڑی، اپنی دعوت کہ حمایت کی- ان کے آقا جنہوں نے ان پر اسلام قبول کرنے کہ وجہ سے تشدد کیا تھا، ان کا جنگ بدر میں بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں گرنا مقرر تھا- اس کافر آقا نے بلال پر تشدد کیا، انہیں گرم ریت پر لیٹا  کر ان کے سینے پر بڑا پتھر رکھا، صرف توحید کے الفاظ کے لۓ “ایک، ایک”-

جس دن مکہ پر قبضہ ہوا، بلال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کعبہ میں داخل ہوۓ- ان کی آواز، جس نے پہلی دفعہ دعوۃ کہ لۓ آواز لگائ تھی، مدینہ میں مسجد نبوی سے، اول ہے جس نے کعبہ سے آزان دی، اور یوں اس کہ آزادی کا اعلان کیا-

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو چنا آزادی کا اعلان کرنے کے لۓ، یہ ایک قسم کہ علامت تھی- گویا آپ دنیا بھر کے لوگوں کو بتا رہے ہوں: ” دیکھو کیسے ایمان اور اللہ کا خوف اس ایتھوپین کو سرفراز کیا، جو کبھی مکہ میں بطور غلام لایا گیا تھا- ہمارے دین، اسلام میں، غیر یکسانیت کے لۓ کوئ جگہ نہیں ہے-

جب آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فوت ہوئ، بلال رضی اللہ عنہ کا سوگ بےحد زیادہ تھا، انہوں نے شام چلے جانے کی اجازت مانگی- شام (موجودہ سوریا) میں انہوں نے جنگ یرموک میں حصہ لیا، اور پھر دمشق کے محاصرہ میں- اور وہ شام میں جہاں بھی جاتے، وہاں آزان دیتے-

ان کی محبت اور احترام اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ عالم کے لۓ

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فوت ہوي، بلال نے آخری بار آزان دی- جب وہ “أشهد أن محمدًا رسولُ الله…” پر پہنچے تو وہ رونے لگے- مسجد میں سبھی لوگ اور مدینہ کے ساکن بھی رونے لگے- بلال نے آزان میں مداخلت کی اور حضرت ابو بکر صدیق سے مدینہ چھوڑنے اور مجاہد بننے کی اجازت لی- شہر چھڑنے کے بعد، وہ اللہ کی راہ میں لڑے-

بلال بن راباح رضی اللہ عنہ جدید شام کی سرزمین، دمشق میں سپرد خاک ہوۓ-

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین