سورۃ الزلزلۃ: قیامت کی نشانی
اسلام

سورۃ الزلزلۃ: قیامت کی نشانی

سورة الزلزلة قرآن کریم کی 99ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورة الزلزلة کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو کہ آٹھ آیات پر مشتمل ہے، زلزلہ کے معنی پے در پے زور زور سے حرکت کرنے کے ہیں۔ اور اس کی پہلی آیت سے اس کا نام انتخاب ہوا ہے، کیونکہ اس میں زمین کے آخری زلزلہ اور زمین کا نظام ختم ہونے اور قیامت کے آغاز کی بات کی گئی ہے۔ 

سورة الزلزلة قیامت کی نشانیوں کے بارے میں ہے۔ اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے کہ کیسے قیامت کے دن زمین اللہ تعالیٰ کے حکم سے بول  پڑے گی اور انسان کے اعمال پر گواہی دے گی۔ اس سورۃ میں کہا گیا ہے کہ ہر نیک اور بد اعمال انجام دینے والے کو اس کے اعمال کا نتیجہ ملے گا۔

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورة الزلزلة کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی

سورۃ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وقوع قیامت کے وقت زمین انتہائی سختی کے ساتھ ہلا دی جائے گی اس پر موجود تمام مکانات منہدم ہو کر زمین بوس ہوجائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے، تمام ٹیلے برابر کردیئے جائیں گے، اور پوری زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی، اس زلزلے کی وجہ سے زمین میں کوئی نشیب و فراز باقی نہیں رہے گا۔ حتّٰی کہ زلزلے کی شدت سے ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ یعنی انسان یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس زلزلے کی کیفیت کیسی ہوگی۔ دریاؤں، پہاڑوں، سمندروں غرضیکہ ہر چیز کو ختم کردیا جائے گا جس سے اس زمین کی ہیئت ہی بدل جائے گی پھر اس پر میدان محشر قائم ہوگا۔

اور زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی۔

زمین کے بوجھ سے مراد وہ مردے ہوں یا خزانے جیسے سونا، چاندی، ہیرے، جواہرات وغیرہ جو زمین کے اندر پوشیدہ ہیں۔ اُس دن خزانے (ہیرے ،جواہرات وغیرہ) زمین کی سطح کے اوپر یونہی پڑے رہیں گے، کوئی ان کو لینے والا بھی نہیں ہوگا۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ لوگوں  کے سامنے یہ آشکارا کر دیں گے کہ دیکھو ! جن چیزوں کے پیچھے تم بھاگتے تھے، ان کی آج کوئی وقعت و حیثیت نہیں ہے۔ 

یعنی زمین میں جتنے انسان دفن ہیں، وہ زمین کا بوجھ ہیں، جنہیں زمین قیامت والے دن باہر نکال پھینکے گی۔ ان دفن شدہ مردوں کے بوجھ یعنی سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کر تاقیام قیامت جتنے انسان زمین کے اندر مدفون ہوں گے اور جو مٹی میں مل کر مٹی بن چکے ہوں گے۔ زمین ان کے تمام اجزاء کو نکال باہر پھینکے گی۔

اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے ؟

اس آیت میں ﷲ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ انسان جب زمین کو نہایت شدت کے ساتھ ہلتا دیکھ گا تو انسان دہشت زدہ ہوکر کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے، یہ کیوں اس طرح ہل رہی ہے اور اپنے خزانے اگل رہی ہے۔

جو انسان بعث بعد الموت اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا تھا، یعنی کافر مارے حیرت و دہشت کے کہے گا کہ آج اسے کیا ہوگیا ہے لیکن مومن انسان ایسا سوال نہیں کرے گا اس لئے کہ اس کا تو ایمان تھا کہ جب قیامت آئے گی تو زمین نہایت شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی۔

اس دن یہ اپنی خبریں کہہ سنائے گی۔ 

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہماری توجّہ روزِ قیامت دی جانے والی زمین کی گواہی کی طرف مبذول کرائی ہے کہ جب قیامت کے دن زمین اپنی تمام خبریں اور واقعات ظاہر کرے گی، جو روئے زمین پر پیش آ چکے ہوں گے۔ اس دن اللہ تعالیٰ زمین کو بھی بولنے کی صلاحیت عطا فرمائے گا اور وہ ہر انسان کے بارے میں ایک ایک گواہی دے گی کہ وہ اس کی پشت پر بیٹھ کر کیا کیا حرکتیں کرتا رہا ہے۔ زمین وہ سب کچھ بیان کرے گی جو اس پر کیا گیا اور بتائے گی کہ کس نے کس وقت کیا نیکی یا کیا بدی کی۔ یعنی جس طرح انسان کے ہاتھ پائوں اور دوسرے اعضاء اس دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اسی طرح زمین کا متعلقہ حصہ اور ٹکڑا بھی اس کے خلاف بطور گواہ کھڑا ہوگا۔

حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر پوچھا ” جانتے ہو اس کے وہ حالات کیا ہیں”؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ” وہ حالات یہ ہیں کہ زمین ہر بندے اور بندی کے بارے میں اس عمل کی گواہی دے گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کیا ہوگا۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں کام کیا تھا۔ یہ ہیں وہ حالات جو زمین بیان کرے گی

اس لیے کہ اسے اس کے رب نے حکم دیا ہوگا۔

اس آیت اور اس کے پہلے والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ اُمور واقع ہوں  گے یعنی زمین جو اس دن مخلوق کو اپنی خبریں بتائے گی اور جو نیکی بدی اس پر کی گئی وہ سب بیان کرے گی تو اس کو یہ قوت گویائی اللہ تعالیٰ ہی عطا کرے گا اس لیے اس میں تعجب کی بات نہیں، جس طرح انسانی اعضا میں اللہ تعالیٰ یہ قوت پیدا فرمادے گا، زمین کو بھی اللہ تعالیٰ متکلم بنا دے گا اور وہ اللہ کے حکم سے بولے گی۔ یعنی زمین اپنی خبریں اس لئے بیان کرے گی تاکہ انسانوں کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔ کیونکہ رب کا اسے یہی حکم ہو گا۔

اس دن لوگ علیحدہ علیحدہ ہو کر نکل پڑیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں کہ دنیا کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ نیک اور بُرے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہوتی ہے؛ لیکن قیامت کے دن ایسا نہیں ہوگا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق مختلف جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کردیں گے۔ اچھے اور بُرے لوگ الگ الگ جماعت میں ہوں گے۔ جس دن زمین کی وہ حالت ہوگی جو ابتدائی آیات میں بیان کی گئی، اس دن لوگ اپنی قبروں سے نکل کر مختلف جماعتوں میں میدان حساب کی طرف دوڑ پڑیں گے تاکہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، بعض لوگوں نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ لوگ میدان حساب سے اپنی اپنی حالتوں اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم کی طرف چل پڑیں گے، کوئی مطمئن ہوگا اور کوئی خائف، اہل جنت کا رنگ سفید ہوگا اور اہل جنم کا سیاہ اور بعض لوگ دائیں طرف جائیں گے اور بعض دوسرے بائیں طرف، یعنی اِس طریقے سے لوگوں کے سامنے ان کے اعمال کا نتیجہ اچھی طرح ظاہر ہو جائے گا۔

پس جس نے ذره برابر نیکی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا

 اس آیت کا مطلب ہے کہ انسان اس دنیا میں جو عمل بھی کرتا ہے اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے اس کا کوئی عمل بھی ضائع نہیں ہوتا اور وہ اسے قیامت کے دن اپنے سامنے پائے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں ایک چھوٹی چیونٹی کے برابر بھی کوئی اچھا کام کئے ہوگا، اس کا ثواب اسے آخرت میں ضرور ملے گا۔

اس آیت میں نیکی سے مراد وہ نیکی  ہے جو ایمان کے ساتھ ہو بغیر ایمان کے اللہ کے نزدیک کوئی نیک عمل نیک نہیں، یعنی آخرت میں ایسے نیک عمل کا جو حالت کفر میں کیا ہے کوئی اعتبار نہیں ہوگا کہ دنیا میں اس کو اس کا بدلہ دے دیا جائے اسی لئے اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ جس شخص کے دل میں ایک ذرہ برابر ایمان ہوگا وہ بالاخر جہنم سے نکال لیا جاوے گا کیونکہ اس آیت کے وعدہ کے مطابق اس کو اپنی نیکی کا پھل بھی آخرت میں ملنا ضرور ہے اور کوئی بھی نیکی نہ ہو تو خود ایمان بہت بڑی نیکی ہے۔ اس لئے کوئی مومن کتنا ہی گناہگار ہو ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا البتہ کافر نے اگر دنیا میں کچھ نیک عمل بھی کئے تو شرط عمل یعنی ایمان کے نہ ہونے کی وجہ سے کالعدم ہیں اس لئے اخرت میں اس کی کوئی خیر، خیر ہی نہیں۔ چناچہ ان کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے، انہیں آخرت کے بجائے دنیا ہی میں بدلا دے دیا جائے گا۔

اور جس نے ذره برابر برائی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بہت اہم حقیقت پر متنبہ کیا ہے کہ جیسے ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اپنا ایک وزن اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے، اور یہی حال برائی کا بھی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے۔اور کسی چھوٹی سے چھوٹی برائی کا ارتکاب بھی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے بہت سے چھوٹے گناہ مل کر گناہوں کا ایک انبار بن سکتے ہیں۔

اس آیت میں شر سے مراد وہ برائی ہے جس سے اپنی زندگی میں توبہ نہ کرلی ہو کیونکہ توبہ سے گناہوں کا معاف ہونا قرآن و سنت میں یقینی طور پر ثابت ہے۔ البتہ جس گناہ سے توبہ نہ کی ہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا آخرت میں اس کا نتیجہ ضرور سامنے آئے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بھی مواخذہ ہونا ہے۔

سورة الزلزلة میں پہلے مختصراً وقوع قیامت بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی کس طرح واقع ہو گی اور وہ انسان کے لیے کیسی حیران کُن ہو گی کہ یہی زمین جس پر رہ کر انسان نے بے فکری کے ساتھ ہر طرح کے اعمال کیے ہیں، اور جس کے متعلق کبھی اس کے وہم و گمان میں  بھی یہ بات نہیں آئی کہ یہ بے جان چیز کسی وقت اُس کے افعال کی گواہی دے گی، اُس روز اللہ تعالیٰ کے حکم سے بول  پڑے گی اور ایک ایک انسان کے متعلق یہ بیان کر دے گی کہ کس وقت کہاں اُس نے کیا کام کیا تھا۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اُس دن زمین کے گوشے گوشے سے انسان گروہ در گروہ اپنے مرقدوں سے نکل نکل کر آئیں  گے تا کہ اُن کے اعمال اُن کو دکھا دیے جائیں، اور اعمال کی یہ پیشی ایسی مکمّل ہو گی اور مفصّل ہو گی کہ کوئی ذرّہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہ رہ جائے گی جو سامنے نہ آ جائے۔  

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں نیکیاں کرنے اور برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

:یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *