سورۃ البروج: اصحاب الاخدود کا احوال و انجام
اسلام

سورۃ البروج: اصحاب الاخدود کا احوال و انجام

سورۃ البروج قرآن کریم کی 85ویں سورۃ ہے جو آخری پارہ میں سے ہے۔  سورۃ البروج کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے جو مکہ مکرمہ میں ایسے وقت میں نازل ہوئی جب کفار اپنی پوری قوت اہل ایمان کو اذیت پہنچانے میں صرف کر رہے تھے۔ سورۃ البروج بائیس آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے، البروج کے معنی لفظی طور پر، “نمایاں اور ظاہر ہونے والی چیز” کے ہیں۔ اور اس سورۃ کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے البروج یعنی “برجوں والے آسمان” کی قسم ارشاد فرمائی ہے، اسی مناسبت سے سورۃ مبارکہ کو سورۃ البروج کے نام سے مَوسوم کیا گیا ہے۔

اس سورۃ کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں مومنین کو تکلیفیں پہنچانے والے کفار کو برے انجام سے خبردار کرنا ہے، اور ان مظالم کے مقابلے میں ثابت قدم رہنے والے اہل ایمان کو ملنے والے بہترین اجر کا بیان ہے۔ اور پھر کفار کو خبردار کیا گیا ہے کہ خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے۔

سورۃ مبارکہ ابتداء میں برجوں والے آسمان، روز قیامت اور اس کے وقوع کی قسم ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے” اصحاب الاخدود “ یعنی کھائیوں والوں کے لئے ہلاکت اور بربادی کا انجام بیان کیا ہے۔ 

مزید اس سورۃ میں ﷲ تعالیٰ نے ” اصحاب الاخدود “ کا احوال بیان کیا ہے جن سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خندقیں کھودیں اور اہل ایمان کو ان خندقوں میں ڈال کر جلایا۔ اور کافر خود آگ کے کنارے بیٹھے اہل ایمان کے جلنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔

علاوہ ازیں اس سورۂ مبارکہ میں ان کفار کے لیے جہنم کے عذاب کی وعید دی گئی ہے جنہوں نے ظلم کیا، اور پھر توبہ بھی نہیں کی۔ جبکہ اہلِ ایمان کی کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔

سورۃ مبارکہ کے آخر میں ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ کفارِ مکہ سابقہ امتوں کے انجام سے نصیحت حاصل کرنے کی بجائے نبی کریم ﷺ اور قرآنِ مجید کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ وہ تو بہت بزرگی والا قرآن ہے اور لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے

یہاں مکمل عربی متن، اردو ترجمہ اور سورۃ البروج کی تفسیر فراہم کی گئی ہے۔

قسم ہے آسمان کی جو برجوں والا ہے۔ اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اور حاضر ہونے والے کی اور اس کی جس کے پاس حاضر ہوا جائے۔ ہلاک ہوگئے وہ کھائیوں والے۔ 

سورۃ مبارکہ کے آغاز میں ﷲ تعالیٰ نے چار چیزوں کی قسم ارشاد فرما کر ” اصحاب اخدود“ پر لعنت بھیجی ہے۔ پہلی آیت میں ﷲ تعالیٰ نے برجوں والے آسمان کی قسم ارشاد فرمائی ہے۔ برجوں سے مراد آسمان کے عظیم الشان ستارے اور سیارے لیے گئے ہیں۔ دوسری آیت میں وعدہ کئے ہوئے دن کی قسم ارشاد فرمائی ہے جس سے مراد قیامت کا دن ہے، جس کا جزا و سزا کے لئے وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو قسم ﷲ نے ارشاد فرمائی ہے وہ  ’’شاہد‘‘ اور ’’مشہود‘‘ ہیں۔ شاہد سے مراد اِنسان ہے، اور مشہود سے مراد قیامت کا دِن ہے، جس کے ہولناک احوال کو سب دیکھنے والے دیکھیں گے۔ کیونکہ ہر اِنسان اُس دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔

تمام قسم ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ” اصحاب الاخدود “ یعنی کھائیوں والوں کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے۔ 

وہ آگ جو بڑی ایندھن والی تھی۔ جبکہ وہ اس (کے کناروں) پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور مومنین کے ساتھ وہ جو کچھ کر رہے تھے خود دیکھ رہے تھے۔ 

ان  آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے ” اصحاب الاخدود “ کا احوال بیان کیا ہے، صیح مسلم میں صہیب ؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کیا ہے کہ، پچھلی کسی امت میں ایک کافر بادشاہ کی رعایا کے لوگ مسلمان ہوگئے تو اس نے گلیوں کے کناروں پر خندقیں کھدوائیں اور ان میں بہت زیادہ ایندھن جمع کر کے آگ کو بھڑکایا گیا اور حکم دیا کہ جو شخص اسلام نہ چھوڑے اسے آگ میں پھینک دو، چنانچہ اہل ایمان کو ان خندقوں میں ڈال کر جلایا۔ اور کافر خود آگ کے کنارے بیٹھے اہل ایمان کے جلنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ان صاحب اقتدار و اختیار لوگوں نے اہل ایمان کو زندہ جلانے کے احکام جاری کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان خندقوں کے کناروں پر انہوں نے باقاعدہ براجمان ہو کر اس دلدوز منظر کا نظارہ کرنے کا اہتمام بھی کیا۔

اور وہ نہیں انتقام لے رہے تھے ان سے مگر اس لیے کہ وہ ایمان لے آئے تھے اللہ پر جو زبردست ہے اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ جس کے لیے بادشاہی ہے آسمانوں کی اور زمین کی۔ اور اللہ تو ہرچیز پر خود گواہ ہے۔

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان اہل ایمان نے ان ظالموں پر یا کسی دوسرے پر کوئی زیادتی نہیں کی تھی جس کا وہ بدلہ لے رہے ہوں ، ان اہل ایمان کا جرم صرف اللہ پر ایمان لا کر اس پر قائم رہنا تھا۔ 

ان آیات میں اللہ تعالی کے ان اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے جن کی بنا پر وہی اس کا مستحق ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے: اللہ تعالیٰ بہت عزت والا، عزیز وحمید ہے، زبردست، غالب اور تمام تعریفوں کا تنہا سزاوار ہے، آسمانوں اور زمین کا تنہا مالک اور بادشاہ ہے جو اپنے بندوں کے ہر قول و عمل پر مطلع ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے اور اس سے مخلوق کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں بلکہ وہ ان کے تمام اعمال کو جانتا ہے۔ آسمانوں اور زمین کے درمیان ایک ذرہ بھی اس کے علم سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے، اور وہ لوگ ظالم ہیں جو اس بات پر بگڑتے ہیں کہ کوئی اس پر ایمان لائے۔

یقینا جن لوگوں نے ظلم و ستم توڑا مومن مردوں اور مومن عورتوں پر پھر انہوں نے توبہ بھی نہیں کی تو ان کے لیے ہوگا جہنم کا عذاب اور جلا ڈالنے والا عذاب۔ یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے وہ باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ہے اصل بڑی کامیابی۔ یقینا تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔

ان  آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے کفار کے لیے جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر ظلم کیا کہ بے شک وہ لوگ جنہو ں  نے اہل ایمان کو اذیتیں دے دے کر آزمائش میں مبتلا کیا، پھر اپنے اس عمل سے توبہ نہ کی اور اپنے کفر سے باز نہ آئے تو ان کے لئے ان کے کفر کے بدلے آخرت میں جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے (قبر میں  بھی) آگ کا عذاب ہے۔

جبکہ انہی آیاتِ مبارکہ میں اہلِ ایمان  کے لیے جنت کی بشارت اور کامیابی کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔ کفار کا انجام بیان کر کے یہاں ساتھ ہی ایمان و عمل صالح والے مومن مردوں اور عورتوں کو تسلی دی گئی کہ جو اس قدر سخت آزمائشوں کے بعد بھی ایمان پر قائم رہے، ان ایمانداروں کے لیے بہشت کے باغ ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی اور یہ بڑی کامیابی ہے۔

پھر ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے وہ اپنے ان دشمنوں کو جو اس کے رسولوں کو جھٹلاتے رہے اور ان کی نافرمانیوں میں لگے رہے سخت تر قوت کیساتھ اس طرح پکڑے گا کہ کوئی راہ نجات ان کے لیے باقی نہ رہے گی۔ اور اگر کوئی شخص اس دنیا میں ایسی گرفت سے بچ بھی جائے تو آخرت میں کبھی بچ نہیں سکے گا۔

وہی ہے جو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ بھی کرے گا۔ اور وہ بخشنے والا ہے محبت کرنے والا ہے۔ عرش کا مالک ہے بڑی شان والا ہے۔ وہ جو ارادہ کرلے کر گزرنے والا ہے۔ 

ان آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دنیا میں تمہارے ظلم و ستم پر باز پرس نہیں ہوئی تو کیا مرنے کے بعد بھی نہیں ہوگی، جس نے تمہیں پہلے پیدا کیا وہی دوبارہ زندہ کر کے تمہیں تمہارا اعمال کی جزا دے گا۔ جب اس نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے تو دوسری مرتبہ وہ اسے پیدا کرنے پر بھلا کیونکر قادر نہیں ہوگا؟

مزید ان آیات میں ﷲ تعالی کی مختلف صفات بیان کی گئی ہیں، ﷲ تعالی کو بخشنے والا ہے کہہ کر یہ امید دلائی گئی ہے کہ کوئی اگر اپنے گناہوں سے باز آ کر توبہ کر لے تو اس کے دامن رحمت میں جگہ پا سکتا ہے ۔ محبت کرنے والا کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو اپنی خلق سے عداوت نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اس کو مبتلائے عذاب کرے ، بلکہ جس مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے اس سے وہ محبت رکھتا ہے اور سزا صرف اس وقت دیتا ہے جب وہ سرکشی سے باز نہ آئے ۔ مالک عرش کہہ کر انسان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ سلطنت کائنات کا فرمانروا وہی ہے، اس سے سرکشی کرنے والا اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا ۔ بزرگ و برتر کہہ کر انسان کو اس کمینہ پن پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی ہستی کے مقابلہ میں گستاخی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اور آخری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے، یعنی پوری کائنات میں کسی کی بھی طاقت نہیں ہے کہ اللہ جس کام کا ارادہ کرے اس میں وہ مانع و مزاحم ہو سکے۔

کیا آپ کے پاس لشکروں کی خبر پہنچی ہے ؟ فرعون اور ثمود کی ؟ لیکن یہ کافر جو ہیں یہ جھٹلانے ہی میں لگے رہیں گے۔ جبکہ اللہ ان کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔  بلکہ یہ تو قرآن ہے بڑی شان والا۔ لوحِ محفوظ میں (نقش ہے)۔

سورۃ کی ان آخری آیاتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے ثمود اور فرعون کے دو قصے، اہل مکہ کو یاد دلائے ہیں، تاکہ وہ ان قصوں سے عبرت پکڑیں۔ 

فرعون کو بھی اپنی سلطنت، حکومت اور لاؤ لشکر پر بڑا گھمنڈ تھا اور قوم ثمود بھی اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھے بیٹھے تھے جنہوں نے اپنے مکانات تک پہاڑوں کے اندر بنا رکھے تھے بلکہ شہروں کے شہر پہاڑوں کے اندر آباد کر رکھے تھے۔ اور کہتے تھے کہ قوت میں ہم سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے ؟ مگر جب ان لوگوں نے گھمنڈ میں آکر اللہ کے مقابلے میں سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔

حق تو یہ تھا کہ پہلے سرکشوں کا انجام دیکھ کر یہ لوگ ایمان لے آتے، مگر یہ الٹا اللہ کی طرف سے جو آیات نازل ہوتی ہیں، خواہ مخواہ جھٹلانے میں لگ جاتے ہیں، حالانکہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں چاورں طرف سے گھیرے ہوئے ہے، وہ جب چاہے پکڑ لے۔

یہ لوگ جس قرآن کو جھٹلانے کے درپے ہو رہے ہیں وہ بڑی بلند شان والا ہے۔ جس کو جھٹلا دینا ان کے بس کا روگ نہیں۔ البتہ اپنی اس حرکت کی پاداش میں یہ خود تباہ ہوسکتے ہیں۔ قرآن کا لکھا ہوا اٹل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی اور ہر طرح کی دستبرد سے، رد و بدل اور ترمیم و تنسیخ سے پاک ہے۔

ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ ہمیں آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے اور حقیقی کامیابی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

یہاں تصویروں میں پوری سورۃ بمع اردو ترجمع دی گئی ہے

 

Print Friendly, PDF & Email

مزید دلچسپ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *